• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھڑ آدھا شہ رگ غائب
سابق وزیراعظم نے کہا ہے:سقوط ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا۔ اگر اس بیان کو موجودہ سیاسی غیر سیاسی منظر نامے سے الگ کر کے دیکھا جائے تو یہ ایک اچھی بات ہے، پاکستانی قوم اور اس کے تمام اداروں کو پاکستان دو ٹکڑے ہونے کا سانحہ بھولنا چاہئے نہ ہی قبول کرنا چاہئے، کبھی کوئی گھر کا برتن بے سبب نہیں ٹوٹتا، تو وطن کیسے غفلت کے بغیر دو لخت ہو سکتا ہے، یہ وہ مقدمہ ہے جو قائداعظم نے جیتا تھا ہم نے ہار دیا، اور آدھا دھڑ وہ بھی شہ رگ کے بغیر رکھتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ پاکستان ٹوٹنے کا الزام لگانا بے سود، یہ کہنا بھی برمحل نہ ہو گا کہ اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، آج یہ حال ہے کہ کوئی ایک نہیں، ہم سب نے سقوط ڈھاکہ سے یہ الٹا سبق سیکھا کہ باقی ماندہ ملک کو خوب لوٹا اور بقدر استطاعت و طاقت لوٹا، کسی بھی ملک کی ترقی کی پہلی نشانی یہ ہے کہ اس کے ان لوگوں کی زندگی کس ڈھب سے گزر رہی ہے جو ایلیٹ نہیں، جن کا کوئی پروٹوکول کجا بنیادی انسانی حقوق بھی ندارد، خود پاکستانی دوسرے پاکستانی سے یہ کہتا ہے، بھیا یہ پاکستان ہے غلط کام میں خوف کیسا یہ پاکستان ہے سب چلتا ہے، ایسی سوچ ہو اور ہوس اقتدار ہی کو سیاست جمہوریت کہا جائے سمجھ لیا جائے تو پھر یہ بھی تو ایک طرح سے سقوط ہے، کوئی بھی آپ کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا اگر آپ بیدار ہوں، تیار ہوں اور اپنے دروازے بند رکھے ہوئے ہوں، یہ جو بڑی طاقتیں اور دشمن ہوتے ہیں ان کا انداز بھی ہماری پولیس جیسا ہوتا ہے کہ یَرکا دو اگر کوئی نہ یَرکے تو یَرک جائو، اس لئے کبھی سر جھکا کے نہیں سر اٹھا کہ چلنا چاہئے آج ہم ہر آنے والے دن میں اپنے عام آدمی کی زندگی میں مزید ابتری لا رہے ہیں اور پھر یہ بھی کہتے ہیں سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہ سیکھا، یہ سبق قوم کے لیڈرز سکھایا کرتے ہیں۔
٭٭٭٭
شخصیت پرستی اور حُب الوطنی
خدا کے لئے ملک سنوارنے کے لئے شخصیت پرستی ترک کر کے وطن کو سنوارنے سے عشق کریں، یہ شخصیت پرستی ہی تو تھی جس نے صنم خانے آباد کئے اور انسانوں کی بھلائی کا خانہ ہی اجاڑ دیا، کسی کا ادب لحاظ خیال اور چیز ہے اس کو آنکھ بند کر کے پوجنا الگ ایک مہلک بیماری ہے جس نے امم سابقہ کو چاٹ لیا، تہذیبوں کے نشان مٹا دیئے، ہم تو آج کسی کا گیٹ اپ کسی کا حقیقت سے قریب ڈراما دیکھ کر اس کے متوالے ہو جاتے ہیں، کوئی ہمارے سامنے رو پڑے تو ہم اس کے صدقے واری جاتے ہیں، اور وہ ہمارے گھر کا سامان لوٹ جاتا ہے، سیاست، جمہوریت، پیری فقیری، حکمرانی، انصاف، کردار یہ سب فقط الفاظ ہیں جن کا کہنا بہت آسان مگر عملاً ان پر پورا اترنا بہت مشکل کوئی چرب زبان آ کے آپ کو سبز باغ دکھائے تو کیا آپ کالا باغ ڈیم بنانا ترک کر دیں گے، بے تحاشا پانی ہم سمندر میں پھینک دیتے ہیں، اپنی بستیاں بھی سیلابوں سے اجاڑ بیٹھتے ہیں مگر پانی جمع کر کے ڈیم کی صورت اس سے ٹکے سیر بکنے والی سستی بجلی بناتے ہیں، مہنگا تیل، گیس بھاری نرخوں پر درآمد کر کے مہنگی ترین بجلی بناتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم احمق نہیں، ایسی دولت جمع کرنے کا کیا فائدہ جو ہماری ضرورت سے کہیں زیادہ ہو، ہم تو اس کا عشر عشیر بھی استعمال کئے بغیر بصد حسرت اس دیار ناپائیدار سے رخصت ہو جائیں گے، راتوں کو جب بغیر کچھ کئے اتنی ساری دولت ملے گی تو وہ خرمستیاں کریں گے اور جرم جنم لے گا، جس قوم میں حکمرانی موروثیت بن جائے، اور جو لوگ کسی کو بدھا بنا کر اسے ناگزیر بنا لیں انہیں زوال نگل جاتا ہے، اسلام نے دنیا کو یہ بتایا کہ لوگوں کو استعمال کر کے ان پر حکمرانی کرنا ظلم ہے، قوم کا حکمران اس کا خادم ہوتا ہے، اور یہ خدمت نظر آنی چاہئے۔
٭٭٭٭
ظلم، تعلیم عام نہیں ہونے دیتا
کوئی کسی سے زیادتی کرے وہ کچھ نہ کہے سہتا رہے تو یقین کر لیں کہ وہ شخص تعلیم سے عاری ہے، اب یہ کہ تعلیم کیا چیز ہے تو سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اگر یہ ایک نمبر ہو تو ظلم کو برداشت کرنے سے روکے گی، آج اوپر نہ جائیں اپنے پرائمری اسکولوں ان کے نصاب اور وہاں تعلیم دینے والوں کو دیکھ لیں اگر بصیرت ہو گی تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان نام نہاد درس گاہوں کی پروڈکشن کیا ہو گی، اب ایک بچہ نرسری سے آخری ڈگری تک آکسفورڈ سے پڑھ کر آیا ہو اور ایک ہمارےہاں کانجی ہائوس اسکولوں کا پڑھا ہوا تو ظاہر ہے ایک آقا بنے گا دوسرا غلام، یاد رکھیں طاقت، علم کی پیداوار ہے، علم کو طاقت پیدا نہیں کرتی، اگر ہم نے علم پر توجہ دی ہوتی جیسا کہ اس کا حق ہے تو آج کسی بھی میدان میں ہمارا پہلا نمبر ہوتا۔ اگر کوئی نظام حقیقی تعلیم عام نہیں ہونے دیتا تو اسے بدلیں، کیونکہ اس میں سب نظام سقہ ہوتے ہیں، پھر ظلم کے لئے رستہ ہموار ہوتا، جاگتی ماں کی گود سے بچہ اچک لیا جاتا ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتی، کوئی حکمران دولت لے کر نہیں آتا، مگر دولتمند بن جاتا ہے، آخر وہ دولت کس کی ہوتی ہے، یہی بتانا تو نصاب تعلیم کا کام ہے، انسانی بچے کو بڑے بڑے واقعات پڑھا کر خوفزدہ کر دیا جاتا ہے، اسے اس کی پوشیدہ قوتوں سے آگاہ نہیں کیا جاتا، جب علم باسی ہو جاتا ہے تو ہمارا نصاب بن جاتا ہے، جبکہ علم آگے بہت آگے نکل چکا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے اداروں کے پڑھے ہوئے نوجوانوں کو باہر کی دنیا میں پھر سے پڑھایا جاتا ہے، ترقی یافتہ قومیں ہمیں بتاتی ہیں کہ سکے بدل چکے ہیں زبانیں بدل چکی ہیں علم کے پیمانے بدل چکے ہیں شاید تم طویل خواب سے جاگے ہو۔
٭٭٭٭
قدر میاں دا خان کی جانے!
....Oمریم نواز!’’نواز شریف کے مخالفین بے بس‘‘ ظاہر ہے جن کے پاس نواز شریف نہ ہو وہ بے بس تو ہوں گے، کیونکہ قائداعظم کے بعد نواز شریف ہی ایک مخلص رہنما ہیں جن کی رہنمائی سے یہ بدنصیب مخالف محروم ہیں، مگر کوئی بات نہیں ن لیگ کے لوگ اب بھی نواز شریف سے ہدایت لے کر چلتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس اپنی عقل فکر سمجھ بوجھ بھی ہے، مگر وہ کیوں تھکیں جب ان کا قائد اب بھی ان کے لئے سوچتا ان کے لئے جاگتا ہے، بلاشبہ مریم کا قول سچ ہے کہ مخالف بے بس ہو چکے ہیں، اور دنیا دیکھے گی کہ وہ بھی ایک دن ان کی فکر کے اسیر ہوں گے۔
....Oچیئرمین احتساب بیورو قمر زمان:کرپشن مہلک بیماری،
حکیم مومن خان مومنؔ نے اپنا عقیدہ آخری وقت بھی نہ بدلا اور کھل کر کہہ دیا؎
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
....Oنواز شریف 4سال کے لئے پھر مسلم لیگ ن کے بلا مقابلہ صدر منتخب،
’’قدر نواز سراپا نیاز بشناسد‘‘
نواز شریف کی قدر فقط ن لیگی ہی جانتے ہیں،
قدر میاں دا نونی جانے صاف دماغاں والا
قدر میاں دا خان کی جانے شودھا پناما والا

تازہ ترین