• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں ٹورازم کو آمدنی کا ایک بہترین ذریعہ سمجھاجاتا ہے اور اس مقصد کیلئے ترقی یافتہ ممالک اپنے ٹورسٹ اسپاٹس کو سیاحوں کیلئے پر کشش بنانے کے وہ تمام جتن کرتے ہیں جن سے سیاح ان کے ملک کا رخ کریں وہاں چھٹیاں گزاریں اور ان ملکوں کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہو، ٹورازم کے حوالے سے اگر ٹاپ ٹین ممالک پر نظر ڈالی جائے تو فرانس پہلے نمبر پر ہے ، 2016میں 8کروڑ26لاکھ سیاحوں نے فرانس کا رخ کیا جبکہ 7کروڑ 56لاکھ سیاحوں نے امریکہ کا رخ کیا اور اسپین میں بھی اتنی ہی تعداد میں سیاح آئے ، چین جو ٹور ازم کے حوالے سے چوتھے نمبر رہا اور وہاں 5کروڑ93لاکھ سیاح سیرو تفریح کیلئے آئے لیکن آمدنی کے لحاظ سے چین پہلے نمبر پر رہا اور وہاں سیاحوں نے چین کی معیشت کو 26ارب 11کروڑ ڈالرز کا فائدہ پہنچایا، سیاحوں کی آمد کے حوالے سے چوتھے لیکن آمدنی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر آنے والے چین کی مارکیٹوں اور وہاں بننے والی مصنوعات نے سیاحوں کو سیرو تفریح کے ساتھ ساتھ ڈالرز خرچ کرنے پر بھی مجبور کیا اسی طر ح سے اٹلی میں 5کروڑ 56لاکھ، میکسیکو میں 3کروڑ 50لاکھ ، تھائی لینڈ میں 3کروڑ 26لاکھ اور ترکی میں 3کروڑ 13لاکھ سیاحوں نے سیروتفریح کا لطف اٹھا یا اور قیمتی سرمایہ خرچ کیا، ان دس ملکوں کو ٹورسٹ فرینڈلی بھی سمجھا جاتا ہے ، مجھے بھی ٹورازم کا بہت شوق ہے اور میں گزشتہ دنو ں میں ایک مر تبہ پھر امریکہ گیا ، امریکہ ایک بڑا ملک ہے اور وہاں کا ایک ایک علاقہ ،اسٹیٹ اور شہرسیاحوں کیلئے بہت کشش رکھتا ہے اور یقیناً کچھ علاقے یا شہر ایسے بھی ہیں جہاں آپ کو بہت احتیاط کی ضرورت ہو تی ہے ورنہ آپ کی ساری سیاحت کسی چور اچکے یا ڈاکو کی نذر ہوجائے گی۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا جب بھی آپ کسی دوسرے ملک جاتے ہیں تو اس کے خاص خاص ٹورسٹ اسپاٹس کے علاوہ وہاں کاکلچر وہاں کے بازار، وہاں کے لوگ ، وہاں کی ٹرانسپورٹ وہاں کے لوگوں کی شکل و صورت، رکھ رکھائو اور بول چال ہر شے آپ کیلئے دلچسپی کا بھرپور سامان لئے ہوتی ہے ، لیکن کچھ ایسے اسپاٹس ضرور ہوتے ہیں جہاں آپ جانا ضروری سمجھتے اور وہاں کی یادیں عمر بھر اپنے ساتھ رکھتے ہیں، نیا گرافال جس کا شمار دنیا کے قدرتی عجوبے میں بھی ہوتا ہے، اس کے نظارے کینیڈاا اور امریکہ دونوں ملکو ں سے کئے جاتے ہیں۔ آپ قدرت کے اس شاہکار کو دیکھ کر دم بخود رہ جاتے ہیں ۔ امریکہ میں میرے جیسے سیاحوں بلکہ ہر عمر کے لوگوں کیلئے کنیڈی اسپیس سینٹر بڑی کشش رکھتا ہے جس میں خلا کے حوالے سے ایسی بے شمار چیزیں ہیں جنہیں دیکھ کر سیاح لطف اندوز ہوتے ہیں ، ان میں وہ خلائی طیارے بھی ہیں جن میں بیٹھ کر انسان خلا میں گیا اور وہ راکٹ یا طیارے بھی جو انسان کے بغیر خلا میں گئے اور وہاں سے نادر معلومات حاصل کرکے دنیا کو پہنچائیں، اور خلاکے سفر کا مزا لینے کیلئے ایک خلائی شٹل میں بیٹھ کر خیالی طور پر خلا جانے کا لطف بھی اٹھا یا جا سکتا ہے۔ شکاگو کا نیوی پیر(NAVY PIER)بھی کمال کی جگہ ہے ، اگر میں اس کی تاریخ بیان کرنا شروع کردوں تو کئی صفحات لکھنے پڑیں گے لیکن میں آپ کو یہ بتادوں کہ تفریح اور شپنگ کے حوالے سے یہ ایک بہترین جگہ ہے یہاں سیاح فشنگ کیلئے بھی آتے ہیں لیکن اس کی بڑی کشش 150فٹ اونچا جھولا ہے جسمیں بیک وقت 300افراد بیٹھ کر گھومنے والے ویل کے ذریعے نہ صرف جھولے سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ٹاپ پر جاکر اردگرد ماحول کی خوبصورت کے نظارے بھی کرتے ہیں، میرے پاس ٹورازم کے حوالے سے اور بھی بہت کچھ لکھنے اور بتانے کوہے لیکن میں ہالی ووڈ میں واک آف فیم (WALK OF FAME)کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں یقیناً میرے بہت سارے قارئین پہلے بھی اس کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہونگے لیکن اپنا تجربہ اور اپنی معلومات آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں، واک آف فیم ایک ایسا راستہ یا فٹ پاتھ ہے جس میں دنیا کے معروف فنکاروں ، اسپورٹس اسٹارز، سربراہ مملکت اور دیگر نامور شخصیات کے نام ، ان کے ہاتھوں اور پائوں کے پرنٹس ان کے مجسمے ان کے دستخط جیسی نادر چیزیں اس فٹ پاتھ اور راستے پر موجود ہیں لیکن جب میں نے امریکہ کہ نامور مسلمان ہیوی ویٹ باکسر محمد علی کا نام دیکھنا چاہا تو مجھے نہ ملا، لیکن تھوڑی دیر میں مجھ پر یہ راز افشا ہوگیا کہ محمد علی کا نام اس فٹ پاتھ کی بجائے ایک دیوار پر کندہ تھا ، اس کی وجہ محمد علی نے اپنے نام کی نسبت اور عظمت کی وجہ سے نام کو فٹ پاتھ پر لکھنے کی اجازت نہ دی یہی وجہ ہے کہ محمد علی پہلا نام تھا جس کو فٹ پاتھ کی بجائے دیوار پر لکھا گیا ، یہ میرے لئے بڑی خوشگوار حیرت تھی جس نے مجھ پر ایک مختلف سکون اور خوشی طاری کردی اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر آپ مسلمان ہیں لیکن آپ نے اپنے کارناموں سے دنیا کو تسخیر کیا ہے تو پھر دنیا آپ کو عزت اور وقار دینے پر مجبور ہوتی ہے اور آپکی بات کو اہمیت بھی دی جا تی ہے اور آ پ فٹ پا تھ سے بلند ی کی طر ف چلے جا تے ہیں،لیکن اس کے برعکس ہم اپنے ہی ان شہریوں کو مختلف حوالوں سے ناپسندیدہ قرار دے کر انہیں وہ مقام نہیں دیتے جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں جس میں ڈاکٹر عبدالسلام ، ملالہ یوسفزئی وغیر ہ کے نام شامل ہیں۔ ان پر طرح طرح کے بہتان لگا کر ان کا قد کاٹھ کم کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور ہمارے اپنے ہی اسلامی ملک اپنے ہی مسلمان ممالک کے بھائیوں کو اپنے ملک کی شہریت دینے سے ہچکچاتے ہیں لیکن ویسٹرن ممالک بلا تمیز دوسرے ممالک کے شہریوں کو بھی اپنے شہری جیسا درجہ دے کر نہ صرف ان کے دل جیت لیتے ہیں بلکہ ان کی خدمات سے اپنے ملک اور شہریوں کو بھی بھرپور فائدہ پہنچاتے ہیں، کیا یہ اسلامی ممالک میں نہیں ہوسکتا۔

تازہ ترین