• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی نے جمعرات کے روز انتخابی اصلاحات بل 2017کو تیسری بار ترمیم کے ساتھ منظور کرتے ہوئے ختم نبوت سے متعلق وہ اصل حلف نامہ بحال کردیا ہے جس کے الفاظ میں تبدیلی پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور اگر بروقت یہ کارروائی نہ کی جاتی تو صورتحال کے سنگین تر ہونے کے خدشات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس باب میں بدھ کے روز اسپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت تمام پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں اتفاق رائے سے فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ اس بات کو معمولی یا تکنیکی یا کلیریکل غلطی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ ایسے وقت میں جب بحث و تمحیص کا رخ میاں نواز شریف کے سپریم کورٹ سے عوامی نمائندگی کے لئے نااہل قرار پانے کے فیصلے کے بعد ان کے پارٹی لیڈر بنائے جانے کی راہ ہموار کرنے کی حمایت یا مخالفت کی سمت میں رہا، شور و غوغا کی کیفیت میں ایک ایسی ترمیم پر منظوری کا ٹھپہ لگ گیا جس کے نتیجے میں جلد یا بدیر پورا ملک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہو سکتا تھا۔ ختم نبوت پر ایمان مسلمانوں کے عقیدے کی اہم ترین بنیاد ہے اور اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان کے عوام کی اس معاملے میں حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خواجہ ناظم الدین کی وزارت عظمٰی کے دور میں اتنی بڑی تحریک چلی جس پر قابو پانے کے لئے ملکی تاریخ کا پہلا مارشل لاء لگایا گیا لیکن یہ مارشل لاء محدود مدت کے لئے محدود علاقے میں سویلین حکومت کے فیصلے کے تحت لگایا گیا تھا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کی سرکردگی میں حکومت بنی تو اس وقت بھی اس معاملے نے سر اٹھایا۔ تاہم حکومت نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے قومی اسمبلی کے پورے ایوان کو ایک کمیٹی میں تبدیل کردیا تھا جس نے مختلف فرقوں کے رہنمائوں اور قانونی ماہرین کا موقف سنا اور خاصی عرق ریزی کے بعد ان تمام لوگوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جو عقیدہ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس فیصلے سے اگرچہ خود کو مسلمان کہہ کر متعارف کرانے والے منکرین ختم نبوت غیر مسلم قرار پائے تاہم انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہو گئے جو اسلام غیر مسلم اقلیتوں کو دیتا ہے۔ اس سب کے باوجود اس مسئلے کو کبھی ایک طریقے سے اور کبھی دوسرے ذریعے سے سامنے لانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ارکان اور دینی مدارس کے طلبہ ہی نہیں تمام مسلمان اس باب میں خاصے حساس ہیں۔ انتخابی اصلاحات کا بل 2017ء پہلے قومی اسمبلی سے منظور ہوا۔ پھر سینیٹ میں بعض ترمیمات کے ساتھ منظور ہوا۔ اس کے بعد پھر قومی اسمبلی سے منظور ہوکر ایکٹ کی صورت میں نافذ ہوگیا، یہ بل جب دوسری بار قومی اسمبلی میں آیا تو جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے اس معاملے کو اٹھایا اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے بھی اس باب میں آواز اٹھائی۔ یہ معاملہ اس وقت نہ اٹھایا جاتا تو کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت سے متعلق بیان کی حیثیت حلف سے گھٹ کر اقرار نامے تک محدود رہ جاتی۔ اس بات کا اعتراف کیا جانا چاہئے کہ میاں نواز شریف کے علم میں جیسے ہی یہ بات آئی انہوں نے فوری طور پر عبارت کو اصل صورت میں بحال کرنے کی ہدایت کی۔ میاں شہباز شریف کا یہ ردعمل برمحل ہے کہ ایسی غلطی کے مرتکب کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ بعض حلقے اس تناظر میں عوامی نمائندگی کے لئے نہ صرف تعلیم کا معیار مقرر کرنے بلکہ حلف اٹھانے سے پہلے ایوانوں کے ارکان کی تربیت کی ضرورت کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی رائے شماری سے قبل ہر رکن سے اس اقرار نامے پر دستخط کرائے جانے چاہئیں کہ اس نے متعلقہ مسودہ پڑھا ہے قانون سازی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ کسی قانون کے الفاظ ہی نہیں کاما اور فل اسٹاپ تک کی اہمیت ہوتی ہے مگر باخبر حلقے افسوس کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ ہمارے بعض قانون ساز اس تحریر کو پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے جسے وہ اپنے ووٹ سے پورے ملک کے لئے قانون کا درجہ دے رہے ہوتے ہیں۔

تازہ ترین