• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمانی جمہوریت میں وزیراعظم نہ صرف حکومت کا سربراہ ہوتا ہے بلکہ قوم کا لیڈر بھی ہوتا ہے۔ اس لئے صرف وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر میٹنگوں کی صدارت کرنے سے بندہ آئینی حوالے سے تو وزیراعظم بن جاتا ہے لیکن عملی طور پر وہ وزیراعظم اس وقت بنتا ہے جب وہ قوم کی قیادت کرے، انتظامی، آئینی اور حکومتی امور پر اس کی گرفت مضبوط ہو اور قومی سطح کے فیصلے اور پالیسی بیانات اس کی ذات سے نکلتے نظر آرہے ہوں۔ اس معیار پر پرکھیں تو موجودہ وزیراعظم سجاوٹی وزیراعظم لگتے ہیں، اصلی اور حقیقی وزیراعظم نہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے نہ ان کی حکومتی امور پرگرفت ہے اور نہ ہی فیصلہ سازی میں ان کا کردار کلیدی و بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جب وزیراعظم کا یہ حال ہو تو پھر کابینہ بھی کمزور کمزور سی لگتی ہے؟ اپنا کردار موثر انداز سےسرانجام نہیں دے سکتی اور کابینہ کے اراکین کی آپس میں وہ ہم آہنگی بھی نہیں رہتی جو ایک منظم ٹیم بننے کی بنیادی شرط ہے۔ کابینہ کے اکثر اراکین دل سے وزیراعظم کو وزیراعظم تسلیم نہیں کرتے بلکہ کچھ اراکین کابینہ تو دل میں انہیں اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں اور میاں نوازشریف سے قربت پر فخر کرتےاور انہی سے ہدایات لیتے ہیں۔ میاں صاحب سے قربت پر فخر تو جائز اور قابل فہم ہے لیکن اس زعم کی بنا پر وزیراعظم کو وہ مقام نہ دینا جس کے وہ آئینی طور پر مستحق ہیں کسی طرح بھی جائز نہیں۔ کچھ وزراء اسلئے بھی وزیراعظم کو سنجیدگی سے نہیں لیتے کہ وہ اپنے آپ کو اس عہدے کا زیادہ مستحق سمجھتے ہیں۔ مختصر یہ کہ موجودہ صورت حال اس حوالے سے خطرناک ہے کہ قوم یوں محسوس کرتی ہے جیسے اس کا کوئی قائد نہیںاور ملک میں حکومت موجود بھی ہے اور موجود نہیں بھی۔ اس سیاسی حقیقت سے انتشار کی سی کیفیت کا تاثر ملتا ہے اور سیاسی مرکزیت کے فقدان کا احساس ہوتا ہے۔ داخلی طور پر صورتحال اطمینان بخش نہیں جبکہ خارجی حوالے سے بہت سے خطرات منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔ ان خطرات میں ایک واضح اشارہ تو امریکی سیکرٹری دفاع کا بیان ہےکہ ہم پاکستان کو موقع دیں گے اور پھر سخت اقدامات کی پالیسی اختیار کریں گے۔ موقع دینے سے مراد وہ امریکی مطالبہ ہے کہ پاکستان دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کرے جن کی نشاندہی امریکہ کئی بار کر چکا ہے۔ اگر پاکستان نے ایسا نہ کیاتوامریکہ خود اقدامات کرے گا جس کا مطلب ڈرون حملےاور سرجیکل اسٹرائیکس ہیں۔ ان چیلنجوں اور خطرات سے نبٹنے کے لئے حکومت اور عوام کا یکسوہونا اور حکومت کا نہایت موثر ومضبوط ہونا ضروری ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہم اس معیار پر پورا نہیں اتر سکتے چونکہ یہ احساس دن بدن پھیلتا جارہا ہے کہ قوم،ملک اور حکومت مضبوط و موثر قائد سے محروم ہیں۔وجوہات آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن تلخ سچ یہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی نہ سیاسی خلا پرکرسکے ہیں اور نہ ہی موثر وزیراعظم کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ خارجی محاذ کے علاوہ پاکستان کو خوفناک مالی چیلنجوں اور خطرات کا سامنا ہے جن سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ قرضوں کا بڑھتا ہوا بے پناہ بوجھ، برآمدات میں کمی، بیرون ملک سے ترسیل زر میں کمی، صنعتوں کا زوال اور 150ٹیکسٹائل ملوں کی بندش اور مستقبل میں قرضوں کی بمعہ سود واپسی کی منصوبہ بندی کا فقدان وہ چند خطرات ہیں جو ملک و قوم کے صبر کی گردن میں پھندا ڈال سکتے ہیں۔ بظاہر موجودہ حکومت اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کی اہل نہیں لگتی۔
ایک طرف ملک و قوم کو نہایت سنجیدہ خطرات کا سامنا ہے جو ہر شہری کو نظر آرہے ہیں تو دوسری طرف وزیراعظم کی کمزور یا نرم گرفت سے ایسے مسائل پیدا ہورہے ہیں جو نہ صرف انتشار اور مایوسی کو ہوا دے رہے ہیں بلکہ حکومت کی مقبولیت میںبھی سرنگ لگا رہے ہیں۔ انتخابی اصلاحات بل کی آڑ میںختم نبوت کا حلف نامے سے خارج ہونا اور ’’حلفیہ بیان‘‘ کے الفاظ کی جگہ ’’اقرار کرتا ہوں‘‘ کے الفاظ شامل کرنا ایک ایسا ہی معاملہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی کابینہ اور پارلیمانی امور پر گرفت کمزور ہے۔ اسپیکر کے بقول یہ ٹیکنیکل غلطی تھی جبکہ ماہرین قانون کی نظر میں یہ نیت کا فساد تھا کیونکہ اس فارم میں جہاں ختم نبوت کے حوالے سے حلفیہ بیان کو حذف کیا گیا وہاں سیکشن سات (سی) منسوخ کر کے قادیانی ووٹر کو مسلمانوں کی ووٹر لسٹ سے نکالنے کا کوئی قانونی طریقہ ہی باقی نہ بچا اور ایسی کئی تبدیلیاں حادثاتی یا تکنیکی غلطیاں نہیں بلکہ نیت کے فتور کو ظاہر کرتی ہیں۔ کیا قانون سازوں کو علم نہیں تھا کہ پاکستان کے مسلمان ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ پر جان قربان کرنا اعزاز اور بخشش کا سامان سمجھتے ہیں اور حب رسولؐ کو زندگی کی قیمتی ترین متاع سمجھتے ہیں۔ یادش بخیر گزشتہ دنوں میں ایک بڑے ماہر قلب (کارڈیالوجسٹ) کی سوانح عمری پڑھ رہا تھا جو ان کی وصیت کے مطابق ان کے وصال کے بعد شائع ہوگی۔ انہوں نے مسودہ ازراہ عنایت مجھے بھجوایا تھا۔ میں انہیں صاحب باطن، صاحب نظر اور ولی اللہ سمجھتا ہوں اور جانتا ہوں اخفا ان کا حکم ہے اور ان کا حکم مجھے عزیز ہے۔ ان گنت واقعات کے جھرمٹ میں انہوں نے ایک خواب کا حال بیان کیا تھا جو قارئین کی نذر ہے۔ لکھا تھا کہ خواب میں خانوادہ رسول ﷺ کے دوشہزادوں کی زیارت نصیب ہوئی۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سے مصافحے کا اعزاز حاصل ہوا او رسب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے جگر گوشوں نے ڈاکٹر صاحب کے ماتھے پر بوسہ دیا اور بتایا کہ ہم سید عطاءاللہ شاہ بخاری کو لینے آئے ہیں۔ اس دور میں ڈاکٹر صاحب کالج کے طالب علم تھے اور ان کا ختم نبوت تحریک سے گہرا تعلق تھا۔ اس تحریک کے سرخیل اور لیڈر حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری تھے جو یقیناً سچے عاشق رسولؐ تھے۔ اسی لئے انہیں یہ مقام اور مرتبہ عطا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول جس رات انہوں نے یہ خواب دیکھا اس سے اگلے دن حضرت بخاری صاحب کا وصال ہوگیا۔
کیا حکمرانوں اور اراکین اسمبلی کو ختم نبوت کی اہمیت کا علم یا احساس نہیں؟ یہ مسلمانوں کے ایمان کا اہم ترین ستون ہے۔ اچھا ہوا حکومت نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے پرانا فارم بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا لیکن سوال یہ ہے کہ حکمرانوں نے عوامی ردعمل کے خوف سے غلطی تو تسلیم کرلی لیکن غلطی کرنے والے سے کیوں صرف نظر کیا جارہا ہے۔ اتنی بڑی حماقت اور بلنڈر(Blunder) پر ذمہ دار وزیر سے استعفیٰ لینا چاہئے تھا تاکہ یہ آئندہ کے لئے عبرت ناک مثال بنتی اور وزیراعظم کے لئے توشہ آخرت بھی بنتی۔

تازہ ترین