• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی نشریاتی ادارے نے جناب نوازشریف کے اپنی جماعت کے صدر بننے پر تبصرہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے حریفوں کے منہ پر سیاسی چپت رسید کی ہے اور اپنے خرمن کے خوشہ چینوں کو خبر بھی دے دی ہے کہ مجھ پر آئندہ بھی قدرت کی طرف سے شعر نازل ہوتے رہیں گے۔ بعض قومی حلقے اور غیر ملکی سفارت کار 3؍اکتوبر کو پاکستان کی سیاست کا ایک اہم دن قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میاں صاحب نے ایک مشکل مرحلہ طے کر لیا ہے۔ وہ تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں جو انہیں سیاست کے کوچے سے باہر نکال دینا چاہتی تھیں، ان کی ساری تدبیریں الٹی ہو گئی ہیں، مگر نوازشریف کو کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہمارا وطن پُراسراریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے اور ہماری آنکھوں کے سامنے انہونے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ایک انہونی تو 28جولائی کو ظہور پذیر ہوئی جب منتخب وزیراعظم کو ایک ایسے الزام پر جس کا رِٹ پٹیشن میں ذکر ہی نہیں تھا، اقتدار سے نکال باہر کیا گیا۔ یہ عجیب و غریب فیصلہ صدیوں یاد رکھا جائے گا جیسے نصف صدی سے مولوی تمیز الدین خاں کیس میں چیف جسٹس محمد منیر کا فیصلہ اس حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے کہ اس نے سیاسی بالادستی پر کاری ضرب لگائی تھی اور سول اور ملٹری بیوروکریسی کے لئے عملاً اقتدار پر قبضہ کرنے کا راستہ ہموار کر دیا تھا۔
دوراندیش لوگ 28جولائی کے فیصلے کے دور رس اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جو پاکستان کے سیاسی اُفق پر گہرے بادل دیکھ رہے ہیں۔ ان کا گمان ہے کہ اس فیصلے کی پشت پر نادیدہ قوتوں نے کام کیا ہے جو عدالتی مارشل لا کے ذریعے اپنی پسند کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے غیر مبہم انداز میں اس مفروضے کی تردید کی ہے۔ ان کے علاوہ فوج کے ریٹائرڈ اعلیٰ عہدے دار جو تاریخ سے اچھی طرح واقف ہیں، وہ بھی اداروں کے مابین کشیدگی کے سخت خلاف ہیں۔ اس کے باوجود ہزاروں ووٹروں نے قومی اسمبلی کے حلقے 120کے ضمنی انتخاب میں جو کچھ دیکھا اور ایک منصوبے کے تحت محترمہ کلثوم نواز کو شکست سے دوچار کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا، اس میں اسٹیبلشمنٹ کے بعض عناصر بڑے سرگرم دکھائی دیئے۔ اس قدر کھلی مداخلت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اسی بنیاد پر ہمارے قابل دوست جناب حفیظ اللہ نیازی نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا پاناما کیس سے لاتعلقی کا خوش کن بیان زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہی بات میں نے اپنے گزشتہ کالم میں کسی دوسرے انداز میںبیان کی تھی کہ خوشگوار تعلقات کی خوشبو اوپر سے نیچے تک پھیلنی چاہیے۔ ابھی صحافتی اور سیاسی حلقے ضمنی انتخاب میں ہونے والی مداخلت کے تکلیف دہ مناظر سے دم بخود تھے کہ 2؍اکتوبر کو احتسابی عدالت اسلام آباد میں ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے وقتی طور پر پورے سول نظام کو ہلا کے رکھ دیا۔ اس تاریخ کی صبح سابق وزیراعظم جناب نوازشریف کو عدالت میں پیش ہونا تھا۔ اسلام آباد کی انتظامیہ اور صحافیوں کی تنظیم نے رجسٹرار صاحب کے ساتھ جملہ انتظامات طے کر لئے تھے۔ ان کے مطابق بارہ صحافیوں کو اندر جانے اور عدالتی کارروائی رپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ سیکورٹی کے معاملات پولیس کے سپرد تھے۔ آٹھ بجے کے قریب عدالت اور سول انتظامیہ کی طرف سے بلائے بغیر اچانک رینجرز نے عدالت کمپلیکس کا کنٹرول سنبھال لیا، صحافیوں کو کمرۂ عدالت سے باہر نکال دیا اور اس کے بعد دروازے پر تالا لگا دیا۔جناب احسن اقبال جو وزیرداخلہ ہیں اور جن کی وزارت کے تحت رینجرز کام کرتے ہیں، انہیں بھی روک لیا گیا اور ان کے بلاوے پر رینجرز کے بریگیڈیئر نے ملنے سے گریز کیا۔ اس پر جناب احسن اقبال قدرتی طور پر طیش میں آ گئے اور استعفیٰ دینے کی دھمکی دے کر چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات کرائی جائے گی اور قانون اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت احتساب سے گزرنا ہو گا۔
پورے دن ٹی وی چینلز اس حادثے پر تبصرے کرتے اور ممکنہ تصادم کے امکانات کا جائزہ لیتے رہے۔ اعتماد کا فقدان ہو تو چھوٹی سے چنگاری بھی قیامت خیز شعلوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ایس ایس پی اسلام آباد نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو اتوار کے روز خط لکھا کہ عدالت کے سیکورٹی انتظامات کے لئے رینجرز کو بلا لینا مناسب رہے گا، مگر ڈپٹی کمشنر نے ان کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور بات ختم ہو گئی۔ ابھی تک یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ رینجرز نے کس کے حکم پر عدالت کا محاصرہ کیا اور ایک انتہائی ہوشربا اور دلخراش صورتِ حال کو جنم دیا۔ اگلے روز کنونشن سنٹر اسلام آباد میں مسلم لیگ نون کی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس ہونے والا تھا۔ اس میں جنرل کونسل کے ہزاروں افراد شریک ہوئے جنہوں نے جناب نوازشریف کو بلامقابلہ صدر منتخب کیا۔ چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے نمائندوں نے بھی انہی کا نام تجویز کیا تھا۔ اس طرح وہ چوتھی بار اپنی جماعت کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے صدارتی خطاب سے پہلے جناب شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق نے شعروں میں گفتگو کی جبکہ احسن اقبال نے اپنے قائد پر زبردست اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری کو پیغام دیا ’نو مور‘۔ وزیراعلیٰ پنجاب اپنے بڑے بھائی سے برسرِعام کہہ رہے تھے کہ آپ کے مشیروں نے گاڑیوں کے لالچ میں آپ کو غلط مشورے دیے۔ آپ کو ان سے مشورہ کرنا چاہیے جو آپ کے سامنے بیٹھے ہیں۔ صحافی ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ جناب شہباز شریف اپنے صوبے میں سیاسی کارکنوں، ارکانِ اسمبلی اور وزرائے کرام سے کتنا مشورہ کرتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے صدر جناب نوازشریف نے اپنے ووٹروں سے خطاب کیا اور انہیں یقین دلایا کہ دستور میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور زمین پر عوام ان کی عطا کردہ امانت کے امین ہیں اور انہی کو اپنے حکمران منتخب کرنے اور اقتدار سے محروم کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ ہم انہیں ان کا حق واپس دلا کر ہی دم لیں گے۔ ہم سب کو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا اور اپنے وطن کو عظیم تر بنانا ہو گا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے اقتدار سے الگ کر دینے پر غصہ ہے، مگر دل میں بغض رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ وہ اللہ کے نور کی جلوہ گاہ ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم نے عدلیہ کے فیصلے پر بلاتاخیر عمل کیا ہے، مگر عوام اس فیصلے کو قبول کر رہے ہیں نہ تاریخ کبھی قبول کرے گی۔
ہمیں خوشگوار حیرت اس امر پر ہوئی کہ مرکزی کونسل کے اجلاس میں رینجرز کا مسئلہ سرے سے زیرِ بحث نہیں آیا اور کور کمانڈر کانفرنس جو اسی روز منعقد ہوئی تھی، اس کا کوئی پریس ریلیز جاری نہیں ہوا۔ لگتا ہے کہ دونوں طرف کی قیادتوں نے تحمل اور بردباری سے کام لینے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ خارجی خطرات کا پورا پورا ادراک رکھتے ہیں۔ اداروں کے مابین تصادم اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی مہم قومی سلامتی کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ حالات کچھ ایسے بنتے جا رہے ہیں کہ ہماری وزارتِ خارجہ بڑی حد تک غیر مؤثر ہو گئی ہے۔ اس میں دھڑے بندیاں ہیں اور سیکرٹری خارجہ محترمہ تہمینہ جنجوعہ جو بہت قابل سفارت کار ہیں، مگر جونیئر ہونے کی وجہ سے وہ اپنی اتھارٹی قائم نہیں کر پا رہی ہیں۔ ہمارے وزیراعظم صاحب کو اس سنگین معاملے کی طرف پوری توجہ دینا ہو گی اور وزارت میں تحرک پیدا کرنا ہو گا۔ اسی طرح ہماری عسکری قیادت جو بیرونی شخصیتوں سے ملاقاتیں اور بڑے بڑے ممالک کے دورے کر رہی ہے، انہیں سیکورٹی کے علاوہ سفارت کاری کے ایشوز میں گہری دلچسپی لینا ہو گی۔ سول اور فوجی ادارے باہمی تعاون سے اپنا گھر درست بھی رکھ سکتے ہیں اور پاکستان دشمن بیرونی عناصر کو بھرپور چپت بھی رسید کر سکتے ہیں، مگر اس کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر میں ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔

تازہ ترین