• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ایک دوست ہیں،حاسدوں سے بہت ڈرتے ہیں،گھر سے کسی دن اچھے کپڑے پہن کر نکلیں، تو انہیں دور سے بھی کوئی حاسد نظر آجائے تو موصوف وہاں سے دوڑ لگا دیتے ہیں،کسی اچھے ہوٹل میں کھانا کھانے کے لئے جائیں اور وہاں کسی ٹیبل پر انہیں کوئی حاسد نظر آ جائے تو الٹے پائوں واپس آجاتے ہیں اور ماسی برکتے کے تنور سے کھانا کھانے نکل پڑتے ہیں،آپ کے ذہن میں یہ سوال یقیناًپیدا ہوگاکہ انہیں پتہ کیسے چلتا ہے کہ فلاں بندہ ان سے حسد کرتا ہے،خود میرے ذہن میں بھی یہ سوال تھا چنانچہ ایک دن میں نے ان سے اس کا جواب مانگ لیا۔انہوں نے اس حوالے سے کئی مثالیں دیں، مثلاََ یہ کہ ایک دن وہ غیر معمولی طور پر حسین لگ رہے تھے،اس دوران ایک دوست سے ان کی ملاقات ہوئی تو واپسی پہ ان کا پائوں پھسل گیااور پائوں میں موچ آ گئی،اس کے بعد انہوں نے اس دوست کوحاسدوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ایک دفعہ ان کی تصویر اخبار میں شائع ہو ئی،نہ جانے کیا حوالہ تھا،اس کے بعد کئی دوستوں نے کہا یار آج تمھاری تصویر اخبار میں دیکھی تھی،اتفاق سے اسی دن ان کو نزلہ زکام ہو گیا،جس کے بعد وہ سب لوگ حاسدین کی فہرست میں شامل کرلئے گئے جنہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے تصویر دیکھی ہے\۔
حاسدوں کی نظر بد کا شکار ہونے والے صرف یہی ایک دوست نہیں ہیں بلکہ ان جیسے لاکھوں کی تعداد میں ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں اور انہی لوگوں کے طفیل عاملوں کا کاروبار روز افزوں نظر آتا ہے۔ہم لوگ معمولی معمولی حادثوںاور چھوٹی بڑی ہر ناکامی کو حاسدوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔میں اس قماش کے لوگوں سے جب ملتا ہوں تو یہ کہتا ہوں بھائی انسان کے پائوں میں موچ بھی آ سکتی ہے،اسے نزلہ زکام بھی ہو سکتاہے، اسے زندگی میں پے در پے ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے،لیکن اگر یہ حاسدوں کا کیا کرایا ہے تو جوکامیاب لوگ نظر آتے ہیں جب یہ کامیابی کی طرف گامزن تھے تو حاسد ان کا کیوں کچھ نہ بگاڑ سکے،اس کا عمومی جواب یہ ہوتا ہے کہ جناب یہ لوگ’’دونمبری‘‘ ہیں،ہم تو ان ہتھکنڈوں سے واقف نہیں اور اللہ نہ کرے کہ ہم کبھی واقف بھی ہوں۔ان کا یہ جواب سن کر دل میں خوب ہنستا ہوں کہ خود ان کے اپنے سب ہتھکنڈوں سے میں پوری طرح واقف ہوتا ہوں۔اپنی نااہلیوں کو دوسروں کے کھاتے میں ڈالنا اور دوسروں کی اہلیت کو دو نمبر ی کاموں کا نتیجہ قرار دینے سے وہ اپنی تشفی تو شاید کر لیتے ہیں مگر یہ سوچ انسان کو کبھی آگے نہیں جانے دیتی۔ اس صورتحال کا ایک حصہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ میں نے ایسے کئی کروڑ پتی دیکھے ہیں جو بدترین زندگی گزار رہے ہیں کہ کہیں حاسدوں کی بُری نظر کا شکار نہ ہوجائیں۔ان میں ایک صاحب نے ویسے تو پراڈو رکھی ہوئی ہے مگروہ اسے گیراج میں تالہ لگا کر’’قید‘‘کیے رکھتے ہیں اور خود رکشے پر آتے جاتے ہیں، دو ایک دفعہ تو میں نے انہیں چنگچی کی پچھلی نشست پر دوسرے مسافروں کے ساتھ سینڈوچ بنے بھی دیکھا ہے،وہ جو کپڑے پہنتے ہیں وہ دور ہی سے دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کپڑے ان سے پہلے کسی اور نے بھی پہنے ہوئے ہیں،یہ بڑے بدقسمت لوگ ہیں کہ ان کی اولاد کے کان ان کی ’’وفات حسرت آیات‘‘کی خوشخبری سننے کو بے تاب نظر آتے ہیں۔
میں نے زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں،تھوڑی تنخواہ میں بھی صاف ستھرے کپڑے پہنے ہیں اور زیادہ تنخواہ میں اس سے زیادہ بہتر کپڑے بھی پہنے ہیں بہتر زندگی بھی گزاری ہے،میں ایک معاملے میں بہت ظالم واقع ہوا ہوں،مجھے اگر یقین ہو جائے کہ کوئی شخص طبعاًحاسد ہے تو اس کے حسد کو نہ صرف یہ کہ بہت انجائے کرتا ہوں بلکہ اس کے حسد میں اضافے کے لئے ہر ممکن ’’انسانی کوشش‘‘ کرتا ہوں بلکہ ایک دفعہ توایسے ایک صاحب کے ساتھ تو میں نے خاصا ’’غیر انسانی‘‘سلوک بھی کیاتھا۔میں ایک دفعہ ان سے ملنے گیا تو سخت پریشانی کے عالم میں مجھے مخاطب کیا اور کہا’’آپ کو پتہ چلا ہے؟‘‘ میں گھبرا گیا کہ نجانے کیا ہو گیا ہے میں نے جواب دیا نہیں،کیا ہوا؟ بولے، ارشد کو جانتے ہونا؟میں نے کہا بہت اچھی طرح۔ کہنے لگے بہت معتبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ وہ روزانہ صبح پھلوں کا جوس پیتا ہے۔یہ سن کر مجھے آگ لگ گئی مگر میں نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے انہیں تنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔میں نے کہا جناب آپ تو بھولے بادشاہ ہیں،آپ کو تو پتہ ہی کچھ نہیں، میں نے ابھی کل اسے لکشمی چوک میں کڑاھی گوشت بھی کھاتے دیکھا ہے۔یہ سن کر ان کا رنگ پیلا پڑگیا۔ مگر اس روز میں انہیں پوری طرح تنگ کرنے پر تُلا ہوا تھا،میں نے جان بوجھ کر پہلے مہنگائی کا ذکر شروع کیا،پھر اپنے کالج کی لیکچرر شپ،کالم نگاری اور شاعروں کے اعزازی معاوضے کو چار سے ضرب دے کرپوچھا’’یہ کتنے پیسے بنے ؟‘‘ اس دوران ان کے سانس کی رفتار خاصی تیز ہو چکی تھی۔ بولے ’’بہت زیادہ۔ اتنے پیسوں کا تم کیا کرتے ہو؟‘‘میں نے مہنگائی کی بات تو پہلے ہی چھیڑی تھی،چنانچہ کہا اتنے تھوڑے پیسوں سے کیا بنتا ہے، اس کے بعد میں نے جیب سے تیس ہزار روپے نکالے جو کمیٹی کے تھے، جس کی کمیٹی نکلی تھی میں اسے پہچانے جا رہا تھا اور ساتھ ہی کہا یہ آپ تیس ہزار روپے دیکھ رہے ہیں بس، گھنٹے بعد نہیں ہوں گے،اس کے بعد مجھے کوئی چیز گرنے کی آوازآئی،یہ چائے کا کپ تھاجو اتنی بڑی خبر کا بوجھ برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے نیچے جا گر اتھا!
اور آخر میں یہ کہ حاسدوں سے ڈریں نہیں بلکہ آتے جاتے انہیں ڈراتے رہا کریں، میں اپنی ایک بات دہرا رہا ہوں کہ تمام گناہوں میں سے حسد واحد گناہ ہے جس کے مرتکب کو اسی وقت سزا ملنا شروع ہو جاتی ہے جب اس کے دل میں کسی کیلئے حسد پیدا ہوتا ہے۔ حاسد کا خون جلنے لگتا ہے اور اس کے جسم کی کیمسٹری فوراً بدلنا شروع ہو جاتی ہے، یقین نہ آئے تو کسی بھی ڈاکٹر سے پوچھ لیں۔

تازہ ترین