• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب سے 16؍برس قبل 7؍اکتوبر 2001 کو امریکی صدر بش نے افغانستان پر فضائی حملے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے صرف چند گھنٹے بعد ہی آمر پرویز مشرف نے ان امریکی حملوں میں معاونت کا اعلان کیا تھا اور 10؍اکتوبر 2001ء کو امریکہ کے جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹرز پاکستان کے جیکب آباد ائیر پورٹ پر اتر گئے جہاں سے اڑ کر افغانستان پر خوفناک فضائی حملے شروع کردئیے گئے تھے۔ پاکستان کی پرجوش معاونت سے 13؍نومبر 2001ء کوکابل میں طالبان حکومت کو شکست ہوگئی اور اگلے ہی روز امریکہ نے طالبان حکومت کی جگہ پاکستان کی مخالفت کے باوجود بھارت نواز شمالی اتحاد کو اقتدار دلوا دیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی مغربی سرحدیں غیرمحفوظ ہوگئیں جبکہ 16؍نومبر 2001ء کو امریکہ کے جنگی جہازوں نے پاکستانی علاقے کرم ایجنسی میں بم گرائے۔ جب پرویز مشرف امریکیوں کی نظر میں ناکارہ ہوگئے تو نام نہاد قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) تخلیق کیا گیا اور انہیں ایسے اقدامات اٹھانے کے لئے آشیرباد بھی دے دی گئی جن کے نتیجے میں وہ جلد ہی اقتدار سے محروم ہوگئے۔
این آر او سے مستفید ہوکر اقتدار میں آنے والی پیپلزپارٹی کی حکومت نے 26؍ستمبر 2008ء کو نیویارک میں فرینڈز آف پاکستان گروپ کے ساتھ ایک اعلامیے پر دستخط کئے جو قوم کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کا ایک عظیم دھوکا تھا۔ اس میں اس وقت کے مشیر خزانہ کا بنیادی کردار تھا۔ جبکہ صدر نے اس اعلامیے پر دستخط کرنے کے بعد اسے پاکستان کے لئے رحمت اور ہم نے جال قرار دیا تھا (جنگ 30؍ستمبر 2008ء) یہ امر افسوسناک ہے کہ ملک کی سیاسی و مذہبی پارٹیوں نے اس پر مصلحتاً مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کی جانی چاہئے کہ جولائی 2005ء سے جون 2008ء کے تین برسوں میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ سے پاکستان معیشت کو 15.6؍ارب ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑا تھا جبکہ اس اعلامیے کے تحت اٹھائے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں جولائی 2008ء سے جون 2011ء کے تین برسوں میں اس جنگ سے معیشت کو 40.6؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا یعنی تین برسوں میں 25؍ارب ڈالر کا اضافی نقصان۔ اس اعلامیے کے ایک برس بعد امریکی صدر نے پیپلزپارٹی کی حکومت سے مفاہمت کے بعد 15؍اکتوبر 2009ء کو کیری لوگر بل پر دستخط کردئیے جس کے 24گھنٹوں کے اندر پاکستان نے جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا۔
ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی اشرافیہ کو خرید لیا ہے اور وہ پاکستان میں انتہا پسندی کوفروغ دے رہا ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر شخصیات کے کچھ بیانات اور اقدامات بشمول خفیہ ملاقاتوں سے امریکی مفادات کا ہی تحفظ ہوتا رہا ہے۔ مثلاً
(1) 15؍مئی 2008ء کو امریکی طیاروں نے باجوڑ پر حملہ کرکے 82؍افراد کو شہید کردیا۔ پاکستان کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ یہ حملہ غلطی سے بھی ہوسکتا ہے۔
(2) 17؍ستمبر 2008ء کو امریکی جاسوس طیاروں نے 7پاکستانیوں کو شہید کردیا۔ اس وقت کےوزیر خارجہ نے امریکہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت اور اس کی فوج میں مکمل رابطہ نہیں ہے۔
(3) بھارت نے 12؍ اور 13؍دسمبر کے درمیان پاکستان کی سرحد کے اندر 100میل تک گھس کر ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی لیکن اس وقت کے صدر نے اسے تکنیکی غلطی قرار دیا۔
(4) اس وقت کےوزیر خارجہ نے کیری لوگربل کے تحت امریکہ سے امداد لینے کے تباہ کن فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے یہ ناقابل فہم دعویٰ کیا کہ اس سے ملک میں معاشی انقلاب آجائے گا۔
(5) پاکستان کے سیکریٹری دفاع نے 7؍اکتوبر 2008ء کو کہا کہ اگر امریکہ اقتصادی پابندیاں لگا دے تو پاکستان گھٹنے ٹیک دے گا۔ قومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر آئی ایم ایف اور عالمی بینک مدد نہ کریں تو معیشت 10دنوں تک بھی جھٹکا برداشت نہیں کرسکے گی۔
سوویت یونین نے 1979ء میں افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس سے دو برس قبل پاکستان میں جنرل ضیا نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ نائن الیون کا واقعہ2001ء میں پیش آیا تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اس سے دو برس قبل 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ ان دونوں ادوار میں اور آج تک ہماری حکومتوں نے عملاً امریکی مفادات کا ہی تحفظ کیا ہے جبکہ قومی مفادات متاثر ہوتے رہے۔ آزادی کے 33برس بعد 1980ء میں پاکستان پر مجموعی قرضوں کا حجم صرف 155؍ارب روپے تھا جو بڑھ کر اب 25000؍ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ یہ بات پریشان کن ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے کووطن عزیز میں اوڑھنا بچھونا بنالیا گیا ہے جس کے نتیجے میں اداروں میں ٹکرائو کی کیفیت ہے، حکومت کمزور اور ملک غیرمستحکم ہورہا ہے جبکہ معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یہ سب استعماری طاقتوں کی خواہش کے عین مطابق ہے کیونکہ اس صورت حال کے نتیجے میں یہ توقع کرنا خود فریبی ہوگی کہ قومی سلامتی کمیٹی بھی امریکہ سے کئے گئے مطالبات کی منظوری کے ضمن میں کوئی ٹھوس موقف اپنائے گی۔
حکومت ملکی پاناماز پر بھی ہاتھ ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہے جبکہ صوبائی حکومتیں اور ریاستی ادارے بھی اس ضمن میں خاموش ہیں۔ چاروں صوبے جائیداد اور زراعت کے شعبوں کو موثر طور پر انکم ٹیکس کے دائرے میں لانے کیلئے قطعی آمادہ نہیں ہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے مقابلے میں چاروں صوبے تعلیم کی مد میں تقریباً 1300؍ ارب روپے سالانہ کم مختص کررہے ہیں۔ 1990ء اور 2000ء کی دہائیوں میں پاکستان میں داخلی بچتوں کی شرح جی ڈی پی کے تناسب سے تقریباً 14فیصد تھی جو کم ہوکر اب تقریباً7.5فیصد رہ گئی ہے۔ تجارتی خسارہ اور جاری حسابات کا خسارہ خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے جبکہ بجٹ خسارہ عملاً کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اس حقیقت کو بہرحال تسلیم کرنا ہوگا کہ معیشت کی خرابیوں میں وفاق کے ساتھ چاروں صوبوں کا بھی زبردست کردارہے۔
یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ماضی میں بینکوں سے غلط طریقوں سے قرضے معاف کروا کر رقوم ملک سے باہر منتقل کردی گئی تھیں مگر اس ضمن میں کارروائی ہو ہی نہیں رہی کیونکہ قرضوں کی معافی کا مقدمہ گزشتہ 10؍برسوں سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں، ممبران پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں، ریاستی اداروں اور سول و ملٹری لیڈر شپ کو بصیرت اور ہمت عطا فرمائے کہ وہ قومی سلامتی و قومی مفادات کے تحفظ کے ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرسکیں۔

تازہ ترین