• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برما ’’میانمار‘‘ میں مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ برمی فوج نے اپنی درندگی کے ثبوت مٹانے کے لئے مسلمانوں کی اجتماعی قبروں کا صفایا شروع کردیا ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان گنت روہنگیا مسلمانوں کی لاشوں کو اجتماعی قبروں سے نکال کر فوجی ٹرکوں کے ذریعے نامعلوم مقام پر منتقل کیا جارہا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک ماہ کے دوران 5لاکھ برمی مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔ بھارت کی سفاکی بھی ملاحظہ کیجئے کہ اُس نے روہنگیا مسلمانوں کو انڈیا داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ اب وہ کھلے سمندر میں بے یار و مددگار کھڑے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردوان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ برما میں مسلمانوں کے خلاف بدترین مظالم کے خلاف ایکشن لے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ شمالی کوریا کے ہائیڈروجن بم بنانے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلالیا گیا مگر برما میں مسلمانوں کے خلاف انسانیت سوز مظالم پر امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کا کردار محض خالی خولی بیانات اور زبانی جمع خرچ کارہا۔ عالمی ادارے نے عملی طور پر اس حوالے سے ابھی تک کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا۔ امریکہ نے چاروناچار بس اتنا کہا ہے کہ اگر میانمار حکومت نے رویہ نہ بدلا تو ایکشن سے گریز نہیں کریں گے۔ درحقیقت امریکی حکومت کا یہ بیان مگرمچھ کے آنسو بہانے کے مترادف ہے۔ روہنگیائی مسلمان اپنے ہی وطن برما میں ایک مظلوم اقلیت بن کر رہ گئے ہیں۔ برما کے انتہا پسند بدھ مت کے پیروکاروں اور سرکاری فوج کے ہاتھوں ہزاروں مسلمانوں کا اب تک وحشیانہ قتل عام کیا جاچکا ہے۔ اقوام متحدہ اور یورپی ممالک کو مسلمانوں کے بارے میں اپنے دہرے معیارات کو بدلنا ہوگا۔ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی ناقابل برداشت ہے۔ اسی تناظرمیں گزشتہ دنوں لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں برما کی سرحد پر روہنگیائی مسلمانوں کے کیمپوں کا دورہ کر کے واپس آنے والے الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے سربراہ جناب عبدالشکور کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں برما سے ہجرت کر کے پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار جاننے اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے 9سے11ستمبر کے دوران انہیں برما کی سرحد کے نزدیک بنگلہ دیش میں جانے کا موقع ملا۔ 72گھنٹے انہوں نے ان علاقوں میں گزارے جہاں روہنگیا کے مظلوم مسلمان کیمپوں میں موجود ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ابھی تک کافی بڑی تعداد میں ان خانماں برباد مظلوموں کے قافلے سمندری و دریائی پانیوں اور دلدلوں کو پار کر کے بے سروسامانی اور بڑی ہی قابل رحم حالت میں چلے آرہے تھے۔ ان کے چہرے کیچڑ سے اٹے ہوئے تھے۔ اس علاقے میں بارشیں بہت ہوتی ہیں اور وہ سبھی کھلے آسمان تلے سڑکوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کا پہلا ردعمل تھا کہ ہم ان کو قبول نہیں کریں گے لیکن بعدازاں ترکی کی درخواست پر بنگلہ دیشی حکومت نے برمی مہاجرین کو قبول کرلیا۔ اس ضمن میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے لائق تحسین کردار ادا کیا ہے۔
ترک حکومت نے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کو اس سلسلے میں مکمل تعاون کی یقینی دہانی کروائی ہے۔ اس وقت ملکی وبین الاقوامی این جی اوز وہاں پہنچ رہی ہیں جس سے وہاں بہتری آنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن پاکستان نے بھی یہ طے کیا ہے کہ ہم مقامی رفاہی تنظیموں کے ساتھ تعاون کے ذریعے وہاں امدادی سرگرمیاںبڑھائیں گے۔ جہاں تک میانمار کا معاملہ ہے تو وہاں کسی این جی اوز کا جانا ممکن نہیں ہے۔ وہ ایک مکمل فوجی انتظام سے گھرا علاقہ ہے۔ یورپ کی جن دوچار این جی اوز کو میانمار میں کام کرنے کی اجازت ملی تو ان کو بھی وہاں سے نکال دیا گیا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن پاکستان کی واحد غیر سرکاری تنظیم ہے جو برما کی سرحد کے قریب روہنگیائی مسلمانوں کے کیمپوں تک پہنچی ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی اس حوالے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ الخدمت فائونڈیشن دکھی انسانیت کی خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ کشمیر، فلسطین، برما سمیت دنیا بھر میں کہیں بھی مسلمانوں پرظلم ہوتا ہے تو الخدمت فائونڈیشن ہر جگہ مصروف عمل دکھائی دیتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 12ستمبر سے شروع ہونے والے اجلاس میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی صرف مذمت کی ہے اور فوجی آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صرف مذمتی بیان اور آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لئے عالمی ادارے کو فوری طور پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ میانمار کی حکومت کی سرپرستی میں وہاں کی فوج، پولیس اور بدھ مت کے پیروکار روہنگیا مسلم اقلیت پر بے انتہا ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں اور اس کی مثال روئے زمین پر کہیں نہیں ملتی۔ شیرخوار بچوں کا سر کاٹ کر انہیں فٹ بال کی طرح ٹھوکریں ماری جاتی ہیں۔ مسلمان عورتوں کی بے حرمتی اور عصمت دری کے بعد انہیں بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات بھی سینکڑوں کی تعداد میں ہوئے ہیں کہ بیسوں نوجوانوں کو زندہ جلا دیا گیا ہے یا زندہ دفن کر دیا گیا ہے۔ چھوٹے معصوم بچوں کو زمین پر اوندھے منہ لٹا کر وہاں کی پولیس اور فوج انہیں بھاری فوجی بوٹوں اور آہنی ہتھیار سے تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کے ناک اور منہ سے خون جاری ہوجاتا ہے اور بالآخر انہیں قتل کردیا جاتا ہے۔ بے گناہ روہنگیا مسلمانوں کے سینکڑوں گائوں اور مساجد نذر آتش کردی گئیں۔ کئی ہزار لوگ زندہ جل کر لقمہ اجل بن گئے۔ ان سب واقعات کو الجزیرہ ٹی- وی، بی بی سی اور وائس آف امریکہ بھی رپورٹ کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی ’’لیڈی لبرٹی‘‘ آنگ سان سوچی کی سربراہی میں میانمار کی فوج، پولیس اور بدھ مت کے پیروکار کر رہے ہیں۔ جن کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کی نسل کشی ہے۔ جو کہ بے انتہا تعصب اور قابل مذمت بات ہے۔
ہمارے کرم فرما دوست علامہ عبدالستار عاصم نے بھی برما میں مظالم کے خلاف اقوام متحدہ کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے یو این او کے سیکرٹری جنرل مسٹر انٹونیوگرٹریس کے نام اپنا کھلا خط بھجوایا ہے۔ یہ کھلا خط ہر پاکستانی مسلمان کے دل کی آواز ہے! اس خط میں لکھا گیا ہے کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی ادارے (اقوام متحدہ) کے جنرل سیکرٹری ہونے کے ناطے آپ فوری طور بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب روہنگیا کے10لاکھ مسلمانوں کو تحفظ فراہم کریں اور وہاں جاری قتل عام بند کروائیں۔ اور ہجرت پر مجبور ہو جانیوالے لوگوں کو واپس ان کے گھر میں آباد کرنے کا بندوبست اقوام متحدہ کی نگرانی میں کیا جائے اور ان کی جان ومال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ میانمار کی حکومت، فوج، پولیس اور بدھ مت کے پیروکار انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان پر مقدمات چلائے جائیں اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے، معصوم بچوں کا بہیمانہ قتل عام عورتوں کی عصمت دری، انسانوں کا زندہ جلایا اور دفنایا جانا۔ انتہائی سفاکی بربریت اور وحشیانہ پن کا عمل ہے۔ جس کے ردعمل کے طور پر امن عالم کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ عالمی مسلم برادری میں شدید دکھ اور غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔ اور اب تو ان تمام واقعات پر تمام غیر مسلم ممالک بھی سراپا احتجاج ہیں جس کا آپ کو فوری نوٹس لینا چاہئے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی سے امن کا نوبیل انعام فوری طور پر واپس لیا جائےکیونکہ اس کا چہرہ اور ہاتھلہو سے رنگے ہیں اور وہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ قابل ِ نفرت اور ناپسندیدہ عورت قرار پائی ہیں۔ امید ہے آپ ہماری گزارشات پر فوری مؤثر اقدامات کریں گے۔

تازہ ترین