• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اداروں میں بہتر رابطہ:قومی سلامتی کا ناگزیر تقاضا

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ روز اپنی مفصل پریس کانفرنس میں متعدد موضوعات پر اہم اظہار خیال کیا ہے جو فی الحقیقت ملک کی موجودہ داخلی صورت حال، اداروں کے درمیان پائے جانے والے تنائو کے عمومی تاثر ، سرحدوں کی پرخطر صورت حال ، دہشت گردی کے مسئلے، افغانستان سے روابط اوربھارت کے مسلسل جارحانہ رویے سمیت پورے علاقائی و بین الاقوامی حالات کے تناظر میں ملک کی عسکری قیادت کی سوچ کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔اس پریس کانفرنس کی اہمیت اس بناء پر خاص طور پر بہت زیادہ ہے کہ اس کا اہتمام آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں ہونے والی سات گھنٹے طویل کورکمانڈرز کانفرنس کے بعد کیا گیا ہے جبکہ اس اجلاس کے بعد معمول کے طریق کار کے برعکس کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا تھا۔پریس کانفرنس میں اس بارے میں سوال کیے جانے پر میجر جنرل آصف غفور نے یہ معنی خیز وضاحت پیش کی کہ خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔ ان الفاظ سے بہرحال یہ تاثر ملتا ہے کہ معاملات میں کچھ نہ کچھ غیرمعمولی پن ضرور ہے تاہم فوج کے ترجمان کی حیثیت سے ان کی یہ یقین دہانی ملک میں آئین کی بالادستی کے خواہش مند تمام باشعور طبقات اور عوامی و جمہوری طاقتوں کے لیے اطمینان بخش ہے کہ اداروں کے درمیان تصادم اور ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا کوئی خدشہ نہیں۔مارشل لاء کی باتوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک لغو موضوع ہے جو لائق گفتگو ہی نہیں۔عسکری قیادت کی یہ سوچ یقیناًملک میں آئین کی بالادستی اور جمہوری نظام کے تسلسل کے تعلق سے ایک نیک شگون ہے تاہم اداروں کے درمیان کشیدگی کے تاثر کو دور کرنے اور باہمی رابطوں کو بہتر بنانے کی بہرحال فوری ضرورت ہے کیونکہ ملک کی ظاہری داخلی صورت حال سے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی جمہوری حکومت کے استحکام کے حوالے سے تحفظات ظاہر کیے جارہے ہیں جس کا تازہ مظاہرہ امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے حکومت پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اظہار تشویش کی شکل میں ہوا ہے۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ عسکری قیادت کو بھی اس صورت حال کا مکمل ادراک ہے جس کا اظہار ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں بھی کیا۔سابق وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی مشترکہ ٹیم میں فوج کے خفیہ اداروں کی شمولیت کو انہوں نے خالصتاً سپریم کورٹ کے آئینی حکم کا نتیجہ قرار دیا اور صراحت کی کہ فوج ہر آئینی حکم کو ماننے کی پابند ہے ۔ ظاہری حقائق کی روشنی میں اس موقف کا درست ہونا واضح ہے لیکن سابق وزیر اعظم کی احتساب عدالت میں پچھلی پیشی پر رینجرز کی پراسرار تعیناتی سے یقیناًبڑی ناخوشگوار صورت حال پیدا ہوئی تھی جس نے اداروں میں تناؤ کا تاثر کو خاصا گہرا کردیا تھا تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر نے اسے غلط فہمی اور ایک غیر تحریری حکم کا نتیجہ قرار دیا ہے ، امید کے کہ آئندہ ایسے کسی بھی اقدام کے اعادے کی روک تھام کویقینی بنایا جائے گا۔ فوج کے ترجمان کی جانب سے کیا جانے والا یہ انکشاف کہ چار غیر ملکی ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی بڑا منصوبہ بنانے میں مصروف ہیں، قومی سلامتی کو درپیش خطرات کی سنگینی کو واضح کرتا ہے جبکہ کشمیر کی صورت حال سے دنیا کی توجہ ہٹانے اور سی پیک کی تکمیل میں رخنے ڈالنے کے لیے بھارت کی سیاسی اور فوجی قیادت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کا اظہار روز بروز شدید تر ہوتا جارہا ہے ۔ ان حالات سے قومی اتحاد اور یکجہتی کو یقینی بناکر ہی کامیابی سے نمٹا جاسکتا ہے۔خصوصاً تمام ریاستی اداروں میں مضبوط باہمی رابطے اس مقصد کے لیے لازمی ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ چیئرمین سینیٹ کی پیش کردہ اداروں کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز پر عمل درآمد ہے ۔ اس ہمہ پہلو اور وسیع تر مکالمے کا اہتمام جلد از جلد ہونا چاہیے تاکہ اداروں میں مستحکم رابطوں کی راہ ہموار ہوسکے جو موجودہ حالات میں قومی سلامتی کا ناگزیر تقاضا ہے۔

تازہ ترین