• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے موجودہ حالات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی سیاسی بے چینی اور ہیجانی کیفیت میں اگر ’’ٹریفک ‘‘پر بات کی جائے تو اس میں لوگ یقیناً دلچسپی نہیں لیں گے لیکن پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں ٹریفک جام اور بدنظمی سے جو ہیجان پیدا ہو رہا ہے ، اس نے نہ صرف ملک کی ایک بڑی آبادی کو ذہنی مریض بنا دیا ہے بلکہ اس کی وجہ سے ہر داخلی ، سیاسی اور معاشی بحران کی مبالغہ آمیزی ( Magnification ) ہو جاتی ہے ۔
جب ہم پاکستان سے باہر کسی ترقی یافتہ ملک میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارا ہیجان ختم ہو جاتا ہے حالانکہ ہمارے انفرادی ، گروہی اور قومی مسائل اسی طرح موجود ہوتے ہیں اور بحرانوں میں بھی پوری شدت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ۔ ہیجان کے خاتمے کا بنیادی سبب اس ملک کے ٹریفک اور پبلک ٹرانسپورٹ کا مربوط نظام ہوتا ہے اور اس نظام کو دیکھ کر اس قوم کے مہذب اور داخلی طور پر مستحکم ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس قوم کے بھی اپنے کئی داخلی بحران ہوتے ہوں گے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹریفک کا نظام نہ صرف کسی ملک اور قوم و تہذیب کا آئینہ دار ہوتا ہے بلکہ اس کے قومی نفسیات پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
ہم نے بحیثیت قوم ٹریفک مینجمنٹ سسٹم پر توجہ ہی نہیں دی ، جس کے نتیجے میں ہم سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے ساتھ ساتھ سماجی اور تہذیبی بحرانوں کا شکار ہیں ۔ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی ٹریفک کے گمبھیر مسائل ہوں گے ۔ مگر کراچی میں ٹریفک جام نے لوگوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے ۔ اس شہر میں سفر کرنا ایک بھیانک تصور ہے ۔ لوگ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں بھی طے نہیں کر پاتے ۔ کراچی کے باسیوں کا زیادہ تر وقت سڑکوں پر ٹریفک جام میں گزرتا ہے ۔ مریض ایمبولینس گاڑیوں میں تڑپ رہے ہوتے ہیں اور کئی مریض اسپتالوں تک پہنچ نہیںپاتے ۔ اسی ایمبولینس میں ان کی میتیں گھر واپس لے جائی جاتی ہیں ۔ بچے ، بوڑھے ، جوان ، خواتین سب بے بسی کے عالم میں ہوتے ہیں ۔ نہ کوئی آگے جا سکتا ہے اور نہ کوئی پیچھے پلٹ سکتا ہے ۔ گاڑیاں چلنے کا نام نہیں لیتی ہیں ۔ عارضہ قلب اور دیگر عارضوں میں مبتلا افراد نہ صرف کوفت اور بے چینی کا شکار ہوتے ہیںبلکہ خیریت سے گھر پہنچنے کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں ۔ اس ٹریفک جام نے کراچی میں ذہنی اور نفسیاتی امراض کے ماہرین اور اسپتالوں کے کاروبار میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے ۔ زیادہ تر جسمانی امراض بھی ٹریفک جام کی اعصاب شکن تھکاوٹ (Fatigue ) کا نتیجہ ہیں ۔ کراچی کے لوگ چڑ چڑے پن اور مایوسی کا شکار ہیں۔ کراچی میں گزشتہ چار عشروں سے جاری بدامنی کے اسباب جاننے کے لئے منعقد کیے گئے مذاکروں اور مباحثوں میں ٹریفک جام ، شور اور ماحولیاتی آلودگی کو بھی دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ بدامنی کا اہم سبب قرار دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں دیگر احکامات کے ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دیا ہے کہ کراچی میں ٹریفک کے نظام کو بہتر بنایا جائے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی میں ٹریفک جام کا مسئلہ کس قدر خوف ناک اور اس کے اثرات کس قدر بھیانک ہیں ۔
کراچی میں ٹریفک جام کے متعدد اسباب ہیں ۔ سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام تباہ ہو چکا ہے اور لوگوں کو اپنی نجی سواریوں یا رکشہ ، ٹیکسی پر سفر کرنا پڑتا ہے ۔ کراچی میں گاڑیاں اتنی زیادہ ہو گئی ہیں کہ سڑکوں پر ان کی گنجائش نہیں رہی ۔ دیگر بھی کئی اسباب ہیں ۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں ۔ شاہراہوں اور سڑکوں کو کشادہ نہیں کیا گیا ۔ تجاوزات کی وجہ سے سڑکیں مزید تنگ ہو گئی ہیں ۔ پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر پارکنگ کرنے پر مجبور ہیں ۔ اگرچہ کئی سگنل فری کاریڈورز بنائے گئے ہیں ۔ اس کے لئے فلائی اوورز اور انڈر پاسز بھی تعمیر کیے گئے ہیں لیکن ان کاریڈورز میں بھی کئی کئی میل تک گاڑی پہلے سے دوسرے گیئر میں نہیں آتی ۔ چوراہوں اور ٹرننگ پوائنٹ پر خاص طور پر گڑھے پڑے ہوتے ہیں ۔ وہاں سگنل کھلے ہونے کے باوجود ٹریفک انتہائی سست روی سے آگے بڑھ رہا ہوتا ہے ۔ لوگوں کو سب سے زیادہ پریشانی ٹریفک پولیس کی بدانتظامی کے باعث ہوتی ہے ۔ رش کے اوقات میں ٹریفک سگنلز بند کر دیئے جاتے ہیں اور ٹریفک کا مینوئل کنٹرول شروع ہو جاتا ہے ۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار چور اہوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اشاروں سے ٹریفک چلاتے ہیں ۔ وہ ایک طرف کا ٹریفک کھولتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ باقی تین اطراف کا ٹریفک رکا ہوا ہے ۔ ایک سگنل پر مینوئل کنٹرول کے پندرہ منٹ پر نہ صرف اس سگنل کے چاروں طرف ٹریفک جام ہو جاتا ہے بلکہ شہر کے وسیع تر علاقوں میں پہیہ جام ہو جاتا ہے ۔ خاص طور پر شام چار بجے سے رات 9یا 10 بجے تک شہر میں غدر مچا ہوتا ہے ۔ لوگ پریشانی کے عالم میں ہارن بجا رہے ہوتے ہیں ۔
زہریلا دھواں لوگوں کو پاگل کر رہا ہوتا ہے ۔ کروڑوں روپے کا ایندھن روزانہ ضائع ہوتا ہے ۔ 5 کلو میٹر کا فاصلہ تین سے چار گھنٹے میں طے ہوتا ہے ۔ کراچی والوں پر اس وقت قہر نازل ہو جاتا ہے ، جب شہر میں کوئی وی آئی پی موومنٹ ہوتی ہے اور عام ٹریفک کو روک کر وی آئی پی اسکواڈ کی گاڑیوں کو 120 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کے لئے راستے خالی کرائے جاتے ہیں ۔ وی آئی پی موومنٹ سے کم از کم آدھا یا ایک گھنٹہ قبل ارد گرد کی لنک روڈز کو بند کر دیا جاتا ہے ۔ وی آئی پی اسکواڈ تو فراٹے بھرتا ہوا نکل جا تا لیکن شہر پر اس کے اثرات دن بھر رہتے ہیں ۔ کراچی کے لوگوں کو وی آئی پی موومنٹ سے شدید نفرت ہو گئی ہے ۔ پورٹ سٹی ہونے کی وجہ سے کراچی میں سب سے زیادہ ہیوی گاڑیاں چلتی ہیں ۔ ان کی وجہ سے بھی ٹریفک کے مسائل میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ۔ ٹریفک جام کے عذاب نے کراچی کے لوگوں کی ایک عجیب نفسیات بنا دی ہے ۔ اس معاملے کو نہ سمجھا گیا تو کراچی مزید بھیانک مسائل کا شکار ہو سکتا ہے ۔ کراچی ٹریفک پولیس کا نظام انتہائی فرسودہ اور غیر سائنسی ہے ۔ ٹریفک پولیس کو صرف کمائی کا ادارہ تصور کر لیا گیا ہے ۔ اس ادارے کو چلانے والے نہ صرف سفارش کی بنیاد پر تعینات ہوتے ہیں بلکہ انتہائی نااہل ہیں ۔ ٹریفک پولیس کی ہنگامی بنیادوں پر ازسر نو تنظیم اور اسے سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی تربیت کے لئے بیرونی ممالک سے ماہرین / ٹرینرز کو بلانا ہو گا۔ روزانہ کا ٹریفک جام اب کراچی والوں کے لئے ناقابل برداشت ہو گیا ہے ۔

تازہ ترین