• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچائی کا سفر ہمیشہ کٹھن ہوتا ہے۔تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے کٹھن سفر ہی کرنا پڑتے ہیں۔آج جو لوگ بھی تاریخ کے اوراق میں زندہ ہیں ،ان کی زندگی کٹھن راستوں پر سفر کرتے ہی گزری ہے۔وقتی آسائش اور عہدوں کے لئے جو راستہ چنا جاتا ہے وہ بہت آسان اور پر آسائش ہوتا ہے۔مگر آپ کو تاریخ میں زندہ نہیں رکھ پاتا۔ہوا کا ایک جھونکا آپکو تاریخ کی نظروں سے اوجھل کردیتا ہے۔آج چو این لائی کو دنیا عزت سے یاد کر تی ہے مگر بالچیف کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ویسے تو چو این لائی نے اپنی زندگی میں بالچیف کو کہا تھا کہ "تم اور میں اپنے اپنے طبقے کے غدار ہیں،تم نے اپنے طبقے سے غداری کی ہے اور میں نے اپنے طبقے سے غداری کی ہے۔ویسے بھی غدار کو تاریخ کبھی یاد نہیں رکھتی اور ایسے افراد کو ہمیشہ اپنے سینے پر بوجھ سمجھتی ہے۔اسی طرح دنیا بھر میں جن لوگوں نے کٹھن راستے کا انتخاب کیا۔آج تاریخ میں زندہ ہیں۔چاہے لاطینی امریکہ کا چی گویرا ہو یا پھر بھارت کا بھگت سنگھ،روس کا ٹراٹسکی ہو یا پھر پاکستان کا ذوالفقار علی بھٹو۔یہ سب افراد آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں۔مگر شاید ضیاالحق اور ایوب جیسے آمر کو کوئی یاد نہیں کرتا۔عین ممکن ہے ضیاالحق اور ایوب خان نے اپنے دور اقتدار میں بے شمار اچھے کام کئے ہوں ۔مگر وقتی آسائش اور عہدے کے لئے انہوں نے وہ راستہ چنا کہ تاریخ خود چاہ کر بھی ان کا ٹریک ریکارڈ درست نہیں کرسکی۔انہی تمام بالاحقائق کو برسوں سے پڑھ پڑھ کر ہمیشہ یہی طے کیا ہے کہ راستہ جیسا بھی ہو مگر تاریخ میں زندہ رہنا ہے۔اسی لئے ہمیشہ نامساعد حالات اور آزمائشی ماحول کے باوجود سویلین بالادستی پر ڈٹ کر اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔پتہ نہیں کیوں آج پہلی مرتبہ احساس ہورہا ہے کہ جمہوریت کے داعی سویلین بالادستی کی جنگ ہار رہے ہیں۔سویلین حکمرانی کا خواب چکنا چور ہورہا ہے۔عین ممکن ہے کہ آج سے چند سال بعد آمریت کی ڈکشنری میں "سویلین بالادستی"کی تعریف غداری کے زمرے میں کی جائے۔سویلین بالادستی کا نیااور آسان مطلب غداری بھی ہوسکتا ہے۔
گزشتہ رات پولیس سروس آف پاکستان کے ایک سینئر افسر گھر تشریف لے آئے۔گفتگو طویل ہوگئی۔اچانک کہنے لگے کہ میں نظریاتی طور پر بھٹو ازم کا شیدائی ہوں۔آج تک مسلم لیگ ن کا ووٹ نہیں دیا۔ہمیشہ پیپلزپارٹی کے ہارنے والے امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔مگر آج ہم سرخیل بھی نوازشریف کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سویلین بالادستی کی واحد امید نوازشریف ہے۔آج نوازشریف نے بھی کٹھن اور پر خطر سفر کا انتخاب کیا ہے۔نوازشریف درست کہتے ہیں کہ وہ انقلابی بن چکے ہیں۔انقلابی نظریات کتابیں پڑھنے یا سرخیل مائنڈ سیٹ سے نہیں آتے بلکہ انقلابی نظریات تب جنم لیتے ہیں جب ظلم اور لاقانونیت حد سے بڑھ جاتی ہے۔
دنیا میں اس شخص سا کوئی منافق نہیں قتیل
جو ظلم تو سہتا ہے پر بغاوت نہیں کرتا
نوازشریف تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔اکثر لکھتا ہوں کہ نوازشریف میں بہت سے خامیاں ہونگی۔مگر نوازشریف کی ایک خوبی ایسی ہے جس کو اگر تنہا میزان میں ڈال دیا جائے تو دوسرا پلڑا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال کے ساتھ جو کچھ ہوا۔مذمت ایک چھوٹا لفظ ہے۔کسی دوست نے اس المناک سانحہ کے بعد خوب تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی پنجاب راجن پور کی آخری چیک پوسٹ شاہوالی کا دورہ کررہے ہوں اور چیک پوسٹ پر کھڑا ایک کانسٹیبل ضلع کے ڈی پی او کو آگے جانے نہ دے کہ "آپکے پاس کارڈ نہیں ہے"۔جتنے رولز کا اس خاکسار کو علم ہے ،میری معلومات کے مطابق کسی وفاقی وزیر کا کوئی باقاعدہ سروس کارڈ نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو عام طور پر بنوا کر ہمہ وقت ساتھ رکھنے کا رواج نہیں ہے۔لیکن اب وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کو امروز کابینہ ڈویژن کو حکم دیناچاہئےکہ تمام وفاقی وزرااورو زراء مملکت کا ایک باقاعدہ سروس کارڈ جاری کریں۔کیونکہ وہ دن بھی دور نہیں ہے جب کسی وفاقی وزیر کو اس کے دفتر کے باہر شناخت جانچنے کے لئے روک دیا جائے گا۔جبکہ وزیراعظم کو چاہئے کہ ایک حاضری رجسٹر بھی وزیراعظم سیکرٹریٹ کے باہر چیک پوسٹ پر رکھوا دیں ۔جس پر ہر وفاقی وزیر اپنی حاضری لگا کر اپنے دفتر جایا کرے۔جبکہ اس سارے معاملے کے لئے کسی قسم کے تحریری نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ ہر حکم تحریری نہیں ہوتا۔کچھ احکامات زبانی بھی دئیے جاتے ہیں۔جبکہ سویلین بالادستی متقاضی ہے کہ رولز آف بزنس اور ایسٹا کوڈ میں جامع تبدیلی کرکے تمام سرکاری افسران کو حق دیا جائے کہ وہ حکومت وقت کے حوالے سے اپنی کسی بھی قسم کی وضاحت پی آئی ڈی میں آکر براہ راست پریس کانفرنس کے ذریعے دیا کریں۔تاکہ کسی بھی افسر کو میڈیا میں اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے دشواری پیش نہ آئے۔جبکہ اس ساری کارروائی کا حکم بھی زبانی دینا چاہئے،کیونکہ ہر حکم تحریری نہیں ہوتا۔کئی دفعہ لکھ چکا ہوں کہ اگر میر ظفر اللہ خان جمالی یا شوکت عزیز جیسے وزیراعظم ہوتے تو آج توسیع دے کر سکون سے بیٹھے ہوتے۔مگر یہ نوازشریف ہی تھا جو نہ صرف مدت ملازمت میں توسیع نہ دینے پر اڑا رہا بلکہ ٹوئٹس معاملے پر مقتدر ادارے کو پیچھے ہٹنا پڑا۔آج نوازشریف بطور وزیراعظم موجود ہوتے تو شایدملک کے وزیرداخلہ کے ساتھ ایسی حرکت نہ ہوتی۔اگر سابق سی سی پی او لاہورپرویز راٹھور2010-11میں رینجرز جوانوں کے عام شہری پر تشدد کرنے کا مقدمہ اس وقت کے ڈی جی رینجرز کے بیٹے پر درج کرسکتے تھے۔کیونکہ ڈی جی رینجرز کے بیٹے کے محافظوں نے عام شہری پر ظلم کیا تھا تو وزیرداخلہ کی تضحیک پر بھی کارروائی ہونی چاہئے تھی۔احسن اقبال کو زیادہ تونہیں جانتا پر اتنا ضرور علم ہے کہ آپا نثار فاطمہ مرحومہ کے بیٹے سے زیادہ محب وطن کون ہوسکتا ہے۔اگر اداروں کے رویہ سے احسن اقبال جیسے شخص کا پیمانہ لبریز ہوسکتا ہے تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ایسے تحمل اور شریف النفس وزیرداخلہ کو استعفیٰ تک مجبور کیا گیا۔
آج ہم جس قسم کی روایات جنم دے رہے ہیں۔اس کے نشانے پر کل ہم سب ہونگے۔پرچار کیا جاتا ہے کہ ہم ہیں تو پاکستان ہے۔جب تک ہماری سوچ تبدیل نہیں ہوگی کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔یونہی ہم پاتال کا سفر جاری رکھیں گے۔نوازشریف صاحب کے کچھ فیصلوں سے شدید اختلاف ہے مگر سویلین بالادستی کے حوالے سے نوازشریف کی خدمات لازوال ہیں۔آج اگر ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لاکر متحد نہ ہوئے تو وہ آنکھیں بھی نہیں رہیں گی جو سویلین بالادستی کا خواب دیکھ سکیں۔

تازہ ترین