• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک چین اقتصادی راہداری پر امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے حالیہ اعتراضات اور بھارت کے اس موقف کی تائید کہ یہ کشمیر سے گزرتا ہے جو متنازع علاقہ ہے فی الحقیقت تضادات کا مجموعہ اور بین الاقوامی برادری کی مشترکہ سوچ کے برعکس ہے ۔چینی قیادت کی جانب سے بین الاقوامی معاشی تعاون اور ترقی کے انقلابی تصور ون بیلٹ ون روڈ کی پوری دنیا میں جتنے بڑے پیمانے پر پذیرائی ہوئی ہے وہ اس حقیقت کا یقینی ثبوت ہے کہ عالمی برادری اسے کسی ایک ملک کی بالادستی کے قیام کا نہیں بلکہ پوری انسانی دنیا کی مشترکہ ترقی وخوشحالی کا لائحہ عمل تصور کرتی ہے ۔ اس امر کا ایک بھرپور مظاہرہ ابھی پانچ ماہ پہلے بیجنگ میں ون بیلٹ ون روڈ سربراہی کانفرنس میں امریکہ سمیت دنیا کے ایک سو تیس ملکوں کی پرجوش شرکت اور اقوام متحدہ کی طرف سے حوصلہ افزائی کی شکل میں ہوچکا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تصور عالمی برادری کو قومی مفادات کی جنگوں سے باہر نکل کر ترقی کی شاہراہ پر مل جل کر آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری بھی اسی تصور کے تحت زیر عمل منصوبہ ہے جو دنیا کے تقریباً ستر ملکوں کو باہمی تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے مربوط کریگا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف خطے کے تقریباً تمام ملکوں نے اس منصوبے میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے بلکہ افریقہ اور یورپ کے درجنوں ملک بھی اس میں شامل ہوچکے ہیں۔البتہ موجودہ بھارتی قیادت چین اور پاکستان دونوں کی جانب سے سی پیک میں شمولیت کی کھلی دعوت کے باوجود اس میں شامل نہ ہونے پر مصر چلی آرہی ہے اور اسے ناکام بنانے کیلئے کوشاں ہے جس کا سبب بظاہر تعصب اور تنگ دلی کے سوا کچھ نہیں ۔امریکی قیادت کی جانب سے اوباما دور میں ون بیلٹ ون روڈ کے تصور اور اس کے تحت پاک چین اقتصادی راہداری کی کوئی مخالفت نہیں کی گئی، بھارت کی جانب سے اس منصوبے کے کشمیر سے گزرنے پر اعتراض کو اوباما انتظامیہ نے قطعی درخور اعتناء نہ سمجھا جبکہ صدر ٹرمپ کے ابتدائی ایام میں بھی سی پیک پر کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا بلکہ کشمیر سمیت پاک بھارت تنازعات کے تصفیے کی خاطر انہوں نے خود ثالثی کیلئے اپنی خدمات کی پیشکش بھی کی جس کا پاکستان نے تو بھرپور خیرمقدم کیا مگر بھارت نے فی الفور مسترد کردیا۔ لیکن صدر مودی کے دورہ امریکہ کے بعد جب ٹرمپ انتظامیہ نے حق اور ناحق سے بے نیازہو کر اپنا پورا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالنے کی پالیسی اپنائی تو اسے نہ تو کشمیر یوں سے کیا گیا حق خود ارادی کا وعدہ یاد رہا اور نہ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کسی توجہ کے مستحق رہ گئے ۔ بھارت کی بولی بولتے ہوئے امریکہ نے خود اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں خطے میں عشروں سے جاری دہشت گردی کا سرپرست پاکستان کو قرار دے کر قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش شروع کردی اور سی پیک میں بھی امریکہ کو خرابیاں نظر آنا شروع ہوگئیں جبکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آئندہ چند ہفتوں میں امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی شاندارجدوجہد اوربے مثال کامیابیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس حوالے سے سخت پیغام دینے کیلئے اسلام آباد آنے والے ہیں۔تاہم حقائق کو نظر انداز کرکے بنائی جانے والی پالیساں کبھی مثبت نتائج نہیں دے سکتیں لہٰذا امریکہ کی اس حکمت عملی کا ناکام ہونا یقینی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو سی پیک کے معاملے میں کشمیر کا متنازع علاقہ ہونا یاد رہنا مگر کشمیریوں کے حق خود ارادی کیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں سات دہائیوں سے روگردانی کی روش اپنائے رکھنا جس قدر متضاد طرز عمل ہے وہ محتاج وضاحت نہیں جبکہ سی پیک تو کشمیری عوام کیلئے بھی خوشحالی کا پیغام ہے لہٰذا اس کے راستے میں رکاوٹ بننا درحقیقت کشمیری عوام سے دشمنی کے مترادف ہے۔ان اسباب کی بناء پر چین اور پاکستان کی جانب سے سی پیک پر امریکہ کے اعتراضات کو تسلیم نہ کرنا یقیناً سو فی صد جائز اور درست ہے اور پوری عالمی برادری کی جانب سے اس کی حمایت کی جانی چاہئے۔

تازہ ترین