• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین پاکستان اقتصادی راہداری عالمی طاقتوں کے گلے میں ہڈی پھنسنے کے مترادف ہے، وہ اس کو اپنے لئے چیلنج سمجھتے ہیں، اُن کے مطابق چین کے عالمی عزائم امریکی بالادستی کو ختم کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس لئے امریکہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور اب وہ چین کو تنہا کرنے کے منصوبے پر زوروشور سے کام کرنے پر تلا ہوا ہے، چین نے امریکی ایماء پر G-20کے اجلاس میں شمالی کوریا پر پابندی لگنے نہیں دی اور نہ ہی مذمت کرنے دی جبکہ شمالی کوریا کھلم کھلا امریکہ کو چیلنج کررہا ہے اور وہ امریکہ جو اپنی ناک پر مکھی بیٹھنے نہیں دیتا تھا وہ اب شمالی کوریا سے امن و آشتی کی بات کرنا شروع کررہا ہے۔ اس کا یہ کہنا ہے کہ شمالی کوریا کا اس طرح چیلنج کرنا روس اور چین کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے، اُس کا اندازہ ہے کہ شمالی کوریا کے پاس 9 یا 10 ایٹمی ہتھیار ہوں گے جس سے خود امریکہ کو اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا جنوبی کوریا اور جاپان کو ہوسکتا ہے۔
امریکہ شمالی کوریا کو اپنے مقابلے کا نہیں سمجھتا مگر کوریا کے عوام امریکہ سے بدلہ لینے کو بیتاب ہیں، اگرچہ امریکی شمالی کوریا کے رویئے کو چین اور روس کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں مگر انہیں یاد ہونا چاہئے کہ انہوں نے کوریا کے کئی ملین لوگوں کو بے گناہ مارا ہے صرف اپنی طاقت کا لوہا منوانے اور اپنا رعب جمانے کے لئے، اس لئے اگر اس وقت شمالی کوریا حالت غصہ میں ہے تو اس کے یہ معنی بھی لئے جاسکتے ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کے بے گناہ قتل کو نہیں بھولا ہے۔ پھر چین نے بقول امریکی دانشوروں کے پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے انتہائی اقدامات کئے ہیں۔
اگرچہ وہ اِس کی تفصیل نہیں بتاتے مگر کہتے ہیں کہ چین نے ایک واخاں کی پٹی سے پاکستان یا چین پر حملہ کرنے یا چین پاکستان راہداری کو بند کرنے یا رکاوٹ ڈالنے کی کسی امریکی، بھارتی یا افغانی کوشش کو روکنے کیلئے واخاں کی پٹی کے ساتھ ساتھ ہزاروں فوجی تعینات کردیئے ہیں۔ حال ہی میں خنجراب کی سرحد پر گئے تھے تو معلوم ہوا کہ واخاں کی پٹی وہاں سے کافی دور ہے، اُس کو دیکھنے کیلئے پاکستان کی مسلح افواج کی مدد کی ضرورت ہوگی، چنانچہ وہ ہم نہیں دیکھ سکے، اس کے علاوہ چینیوں نے واخاں کی 90 میل کی افغان سرحد سے جو پہاڑ کے نیچے سے شروع ہوتی ہے پر ہیلی پیڈ اور فضائی اڈے بنا لئے ہیں تاکہ فوری ردعمل ظاہر کیا جاسکے، واخاں میں امریکہ نے بڑے حساس آلات لگا رکھے ہیں تو چینیوں نے اپنے علاقے میں مناسب کارروائی کررکھی ہے جیسا کہ مغربی پریس پروپیگنڈا کررہا ہے، اس کے علاوہ امریکہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ گوادر کی بندرگاہ پر چینی بحریہ پہنچ چکی ہے، جس کی پاکستان نے یہ کہہ کر تردید کی ہے کہ پاک بحریہ اِس قابل ہے کہ وہ خود اپنی سمندری حدود کا تحفظ کرسکے، اسے کسی اور کی مدد کی ضرورت نہیں البتہ وہ چین سے 8آبدوزیں ضرور خریدرہا ہے، اس کے علاوہ پیٹرولنگ کیلئے ہمارے پاس جدید ترین فاسٹ اٹیک میزائل کشتیاں ہیں، اورین طیارے جیسی صلاحیت کے حامل فریگیٹ ہیں۔ پاک بحریہ یمن سے لے کر کراچی تک گہرے نیلگوں پانی کی بحریہ ہے یعنی وہ اپنے تجارتی جہازوں کی حفاظت کرسکتی ہے، یہاں تک بھارتی جہازوں کو کئی مرتبہ بحری قزاقوں سے بچایا ہے۔ بھارت کے متاثرہ خاندان کھل کر پاکستانی بحریہ کی تعریف کرتے ہوئے نہیں چوکتے اور بھارتی بحریہ کو تنقید کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ امریکہ یہ الزام بھی لگا رہا ہے جس میں بھارت بھی شامل ہے کہ چین بھارت کو گھیر رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان تو دوسری طرف سری لنکا اور تیسری طرف برما جہاں مسلمانوں کو بے دریغ قتل شاید اس لئے بھی کیا جارہا ہے تاکہ چین اور پاکستان کے درمیان دوری پیدا ہو اور کشمیر کے مسئلے سے توجہ کم ہو۔ مزید برآں چین نے ڈی جیبیوٹی میں اڈہ قائم کرکے بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اس سے قزاقوں، انسانی اسمگلروں اور افریقہ اور مغربی ایشیا میں امن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ مزید برآں عالمی بحری تجارتی راستوں کی حفاظت کے امکانات بھی بڑھیں گے۔ چین کا یہ اڈہ امریکی افریقہ میں بحری اڈے لی مونیٹر سے چند میلوں کے فاصلے پر ہے۔ ڈی جی بیوٹی بحری اڈہ بہت اسٹرٹیجک اور مصروف سمندری شاہراہ پر واقع ہے۔ چین مشرق وسطیٰ میں بھی امریکہ کو شام کی تعمیرنو کا منصوبہ بنا کر چیلنج کررہا ہے کہ چین شام کو ازسرنو تعمیر کرنے کا عزم کر چکا ہے۔ اس وقت 150 چینی کمپنیاں شام میں کام کررہی ہیں۔ چین بحر اوقیانوس میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہے، جواباً امریکی اور مغربی ممالک کا یہ خیال ہے کہ اگر وہ بلوچستان میں اپنی سرگرمیاں بڑھادیں تو وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنا دیں گے۔ وہ پاکستان پر دبائو بڑھا رہے ہیں، پاکستان اُن کے دبائو کو بے اثر کرنے کیلئے دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک سے دوری اختیار کرکے امریکی دبائو کو بے اثر کرنا چاہتا ہے مگر چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اگرچہ امریکیوں کا یہ خیال ہے کہ بلوچستان ہی وہ اصل جگہ ہے جہاں سے سی پیک کو متاثر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کی مدد حاصل کرکے اُن کو افغانستان سے ملانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بلاک بنے تاہم یہ کیسے ہوگا ازبکستان، تاجکستان پاکستان کے خلاف کیسے جاسکتے ہیں، وہ صرف بلوچستان میں ہی گڑ بڑ پھیلانا نہیں چاہتا بلکہ ایران کے سیستان کو بھی متاثر کرنا چاہتا ہے۔ جس کیلئے امریکیوں نے داعش کو افغانستان میں جمع کیا ہے، وہ ہمارے خلاف مخلوط جنگ Hybrid War لڑ رہے ہیں۔ جس میں ہر طرح کی دہشت گردی، فرقہ واریت، لسانیت کو ہوا دے کر ملک کو عدم استحکام کا شکارکرنا چاہتے ہیں وہ جس طرح شام میں ناکام ہوئے ہیں یہاں بھی بُری طرح ناکام ہونگے۔ اسلئے کہ بلوچ عوام پہلے ہی متحد ہوچکے ہیں، صرف چند لوگوں کے سوئٹزرلینڈمیں پوسٹر لگانے سے اُن کا کام نہیں چل سکتا اور اُن کے عزائم کبھی پورے نہیں ہوں گے اور انشاء اللہ سی پیک مکمل ہوکر رہے گا۔

تازہ ترین