• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد میں چند روز قیام کریں تو ایسے لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ابھی گئی یا چند دنوں کی مہمان ہے۔ واپس پنجاب یا سندھ میں جائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اپنی حکومت کی مدت پوری کرے گی جبکہ دوسرے صوبوں میں بھی تقریباً یہی ماحول نظر آتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ سپریم کورٹ نے تو28جولائی کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا اور جے آئی ٹی نے ان کی خاندان سمیت کرپشن کی کافی ساری تفصیلات بھی جمع کرادی تھیں۔ اصولی طور پر اس کے بعد سیاسی صورتحال مکمل طور پر بدل جانی چاہئے تھی مگر مسلم لیگ (ن) نے بڑے اسمارٹ طریقے سے نااہلی کے فیصلے کو اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طریقے سے رد بھی کردیا اور دوسری طرف ملک گیر احتجاجی مہم کا آغاز بھی کردیا۔ اب پچھلے چند ہفتوں سے ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے کاروباری زبان میں اسی حکم کو ہوا میں اڑا دیا ہے اور اب ان کی پارٹی کے بعض حلقوں کے مطابق کرپشن الزامات کا معاملہ تو نیب میں چلتا رہے گا مگر سیاسی میدان میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حصص کی قیمت دن بدن بڑھ رہی ہے جسے وہ ان کی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ وہ ایسا دعویٰ کرسکتے ہیں کہ جب ملک میں اخلاقی روایات اور تقاضے نہ مانے جاتے ہوں تو پھر معاشرہ عملی طور پر زوال پذیری کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ دنیا بھرکے ممالک میں کرپشن سب سے زیادہ سنگین جرم سمجھاجاتا ہے مگر پاکستان سمیت اکثر کم ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں اخلاقیات نام کونہیں ہے۔ نہ پکڑے جانے کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی پروا۔اس وجہ سے قومی سطح پر ہمارے اداروں کا برا حال ہے۔ کرپشن کی بیماری کینسر کی آخری سطح پر پہنچنے کے باوجود مختلف قوانین اور ضوابط کو بنیاد بنا کر سیاست اور کاروبار اور نوکریاں کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔ آخر ہمارا معاشرہ کدھر جارہا ہے اس وقت کی صورتحال میں کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف بڑی کامیاب حکمت عملی کے باعث مختلف حلقوں پر اپنا دبائو بڑھانے میں مصروف ہیں، جس سے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سمیت ان کے دیگر ایشوز مسلم لیگ کے دوبارہ صدر بننے اور انتخابی اصلاحات کے مجوزہ بل پر تنقید وغیرہ میں مصروف ہوگئے ہیں جس سے عوامی حلقوں میں اس حوالے سے پریشانی بڑھ رہی ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے ماننے کی بجائے انہیں متنازعہ بنا کر سیاست کو کون سا نیا رخ دیا جارہا ہے۔ کیا اس کی ہمارے ملک کو کوئی ضرورت ہے۔ بالکل نہیں ہے، ہمارے ملک کو تو مکمل طور پر قومی اور سیاسی طور پر استحکام کی ضرورت ہے۔ ملک میں اگر استحکام اور اطمینان ہوگا تو معیشت اور معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔ اس وقت عملاً گومگو کی صورتحال نے معاشی سرگرمیوں پر گہرا اثر ڈال رکھا ہے جس کا احساس اسلام آباد میں بھی ہورہا ہے۔دوسری طرف ملکی سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کار گروپس اور بعض بڑے برانڈز نے یہاں اپنے کاروباری توسیع کے پلان کچھ عرصہ کیلئے مؤخر کردئیے ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ اور یورپ کے کئی معتبر سفارتی حکام بھی یہ کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کے حالات اچھے نظر نہیں آرہے ، مگر دوسری طرف مسلم لیگ (ن) پرامید ہے کہ وہ اپنی اقتدار کی مدت پوری کرے گی اور مارچ میں سینیٹ کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی، مگر ان پر نظر رکھنے والے بھی آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھے ہوئے، جوں جوں دن گزر رہے ہیں سیاسی حالات کی حدت بڑھتی جارہی ہے۔ اسلام آباد میں تو اپنے حالیہ قیام کے دوران یہ چیز ہر جگہ سنی گئی ہے کہ اب بات مہینوں سے ہفتوں میں آنے والی ہے۔ نئی شیروانیاں اور نئے نئے لوگ اور خاص کر’’بابے‘‘ (سینئر سٹیزن) بڑی امیدوں سے کسی کے رخصت ہونے اور کسی کے آنے کی دعائیں کررہے ہیں، اس حوالے سے سیاسی حالات اگر مزید خراب ہوتے ہیں اور عدالتی فیصلوں کو نظر انداز کئے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس حکومت کو آنے والے الیکشن میں معاشی حوالے سے بعض اپنے بڑے اقدامات کی شاباش کی بجائے چارج شیٹ بھی مل سکتی ہے جس سے معاملات تصادم سے بھی آگے بڑھ سکتے ہیں جن کا موجودہ حالات میں ہمارا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے مصالحت اور احتیاط کے ساتھ ساتھ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین