• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں قائم سکھوں کی خیراتی تنظیم خالصہ ایڈ لگ بھگ پچھلےدومہینوں سے میانمار سے بھگائےگئے روہنگیا مہاجرین کیلئے امدادی کاموں میں مصروف ہے جن میں روزانہ کی بنیادوں پر دو وقت کے کھانے کے علاوہ دیگرضروریات کی فراہمی شامل ہے۔ اس سروس کو 'گرو کا لنگر کہہ کر متعارف کرایا گیا ہے جو سکھ مت کے بانی گرو نانک دیو جی کے اس نظریے کی مناسبت سے ہے جسکے بموجب ضرورت مندوں کیلئے لنگر کو واجب ٹھہرایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی کئی صدیوں سے گردواروں میں بلاناغہ عام لوگوں کیلئے بلا لحاظ مذہب و ملّت طعام و قیام کا انتظام ہوتا آ رہا ہے جس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوتے ہیں۔
سکھ رضاکار بنگلہ دیشی سرحدی قصبے تکیف میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں جہاں روہنگیا مسلمانوں کی بڑی تعداد کئی دنوں کی پر آشوب مسافتیں طے کرکے مضروب حالت میں پہنچ رہے ہیں۔ خالصہ ایڈ نے حکومت کی جانب سے کام کرنےکی اجازت ملتے ہی شاہپوری نامی جزیرے پر لنگر کا باضابطہ انتظام کیا جس میں دو وقت کے گرم کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بھارت میں خالصہ ایڈ کے ڈائریکٹر امرپریت سنگھ کے مطابق ابتدائی طور پر انھوں نے روزانہ پینتیس ہزار لوگوں کے کھانے کا انتظام کر رکھا ہے گو کہ انہیں معلوم ہے کہ ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ بھارت کے مؤقر انگریزی روزنامے انڈین ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے روہنگیا مہاجرین کی حالت زار خاص کر بچوں کے بارے میں بتایا کہ ان میں زیادہ تر کئی کئی دنوں کے بھوکے ہیں جس سے انکی حالت ناگفتہ بہ ہے۔حال ہی میں اقوام متحدہ کی ایک ٹیم نے بنگلہ دیش میں قائم رفیوجی کیمپوں کا دورہ کرکے اس بات کی تصدیق کی کہ انکی حالت دنیا کے کئی تارکین وطن سے بے انتہا خراب ہے۔ اگرچہ روہنگیا ئوںکیلنے مسلمان امدادی گروپ خاص کر ترکی سے تعلق رکھنے والی غیر سرکاری تنظیمیں کافی سرگرم ہیں مگر خالصہ ایڈ کے امدادی کام کو کافی بڑے پیمانے پر تشہیر ملی ہے ۔اگرچہ ان کو انسانیت نواز گروپوں کی جانب سے کافی پذیرائی ملی مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں اسلام دشمن گروپوں کی جانب سے مسلسل طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دو ہفتے پہلے گہرے نیلے رنگ کی پگڑی پہنے خالصہ ایڈ کے ایک رضاکار کی تصویر پوری دنیا میں وائرل ہوگئی جس میں وہ ایک تھکن سے چور اور مفلوک الحال نو عمر روہنگیا لڑکی کو بنگلہ دیشی سرحد کے نزدیک پانی پلا رہا تھا۔ اس تصویر کے ردعمل میں درجنوں ہندو شدت پسندوں کی جانب سے بے انتہا نفرت کا اظہار کیا گیا جو پہلے ہی میانماری فوج کو مسلمانوں کی نسل کشی پہ کھلے عام شاباشی دے رہے تھے۔
ہندتوا کی حمایتی ایک خاتون جو خود کو سیاسی طور پر بالغ نظر ہندو گردانتی ہیں اور جسکے ٹویٹر پر لاکھوں پیرو کار ہیں نے سکھ رضاکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا : ’’میں دیکھ رہی ہوں کہ تم برمی سرحد پر روہنگیوں کو کھلانے پلانے جارہے ہو۔ کیا تم پاکستان جاکر وہاں کے سکھوں کو جزیہ دینے سے بچاسکتے ہو؟‘‘ بھارت کے دارالحکومت دہلی میں مقیم ایک وکیل جو خود کو عوامی احساسات کا ترجمان کہتا ہے اور اسکے بھی ٹویٹر پر ہزاروں پیرو ہیں نے خالصہ ایڈ پر علیحدگی پسند خالصتانی ہونے کا الزام لگایا اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کرڈالا کہ یہ لوگ دہلی کے مشہور گردوارے شری بنگلہ صاحب میں روہنگیا رفیوجیوں کیلئے چندہ جمع کررہے ہیں۔جبکہ ایک اور ہندتوا شدت پسند نے سکھوں میں مسلمانوں کے تئیں منافرت کی کوشش کرتے ہوئے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے انہیں یہ باور کرانے کہ کوشش کی کہ ’’مسلمانوں نے سکھوں کے سارے گرووں کو قتل کرڈالا تھا‘‘ اور خالصہ ایڈ کی انسانی بنیادوں پر جاری امدادی کوششوں کو سکھوں کی سادہ لوحی سے تعبیر کیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب روہنگیا مسلمانوں پر میانماری فوج کے حملے ابھی شروع ہی ہوئے تھے تو بھارت کی شمال مشرقی ریاست تریپورہ کے گورنر جناب تھگاتا رائے نے اسکو جائز قرار دیا تھا۔ گورنر رائے جنہیں وزیر اعظم نریندرا مودی نے ذاتی طور پر اس منصب کیلئے چنا تھا نے ایک ٹویٹر پیغام میں اس قتل عام کو تاریخی انصاف قرار دیتے ہوئے اسے بودھوں کی طرف سے ہندوؤں اور چکمہ قبائل کے قتل عام کا بدلہ قرار دیا۔خالصہ ایڈ نے ان منافرت بھرے حملوں کا جواب متانت، دانشمندی اور محبت سے دیکر شدت پسندوں کو لاجواب کر دیا۔ ٹویٹر کے ذریعے کئی پیغامات میں سکھ رضاکاروں نے اپنے ماضی کے کام کا حوالہ دیا کہ کسطرح انھوں نے بھارت میں 2005 کے زلزلہ میں گجرات میں، 2009 کی قحط سالی میں مہاراشٹر میں، اور پچھلے سال چنائے میں سیلاب کے دوران ہزاروں ہندو متاثرین کی امداد کی۔ اسی طرح انھوں نے شامی مہاجرین اور عراق میں داعش کی دہشتگردی کے شکار یزیدیوں کی بھی دادرسی کی۔ مسافروں اورحاجتمندوں کیلئے قیام اور طعام کی سہولتوں کی بلا ناغہ فراہمی سکھ مذہب کی ایک شاندار روایت ہے۔ سکھوں کی مقدس ترین درگاہ گولڈن ٹیمپل کے لنگر سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مفت کھانا کھاتے ہیں۔ یہاں پر رضاکاروں کی محنت اور لگن واقعی ناقابل فراموش ہے۔ میں ذاتی طور پر یورپ، افریقہ اور دیگر کئی علاقوں میں گردواروں کی مہمان نوازی سے بار بار مستفید ہوا ہوں۔ چند سال پہلے کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے ساحلی شہر ممباسا تک ڈرائیونگ کرتے ہوئے راستے میں موکینڈو گردوارے جو نیروبی سے تقریبا 160 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے میں مجھے جو بےپناہ اپنائیت اور پیار ملا اسکی چاشنی ابھی تک میرے دل میں آباد ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں میرے آبائی قصبے بجبھارہ میں تاریخی بادشاہی باغ کے دیو ہیکل چناروں سے متصل گردوارہ گرو نانک دیوجی کی چمپئی رنگ کی دیواروں سے بھی بےپناہ محبت اور اپنائیت رستی ہے۔ ایک حالیہ ملاقات کے دوران وہاں کے گرنتھی تارا سنگھ نے مجھے چار بڑے کمرے دکھائے جو مسافروں اور ضرورت مندوں کیلئے وقف ہیں اور جہاں لگ بھگ سو افراد کی عارضی رہائش کا انتظام ہے۔ ’’ہمارے ہاں کوئی بھی انسان بلا لحاظ مذہب و ملّت آ سکتا ہے‘‘ تارا سنگھ نے محبت بھرے لہجے میں بتایا۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ لگ بھگ بیس سال پہلے جب اس گردوارے کی تعمیر ہو رہی تھی تو میں نے اپنے ایک دوست منظور کے ہمراہ عمارت کی تعمیر میں رضاکار کی حیثیت سے کام کیا تھا جو ہم نے اپنے دوست راجپال سنگھ کی دل جمعی کیلئے کیا تھا۔ گرنتھی تارا سنگھ تھوڑا جذباتی ہوگئے اور انہوں نے میرے ہاتھ کو کس کر پکڑا اور گرو نانک دیو جی کی انسان دوستی کی باتیں کرتے کرتے بڑی محبت اور اپنائیت سے رخصت کیا۔ جوابا میں نے ہاتھ ہلاکر 'ست سری اکال کا نعرہ لگایا اور دوبارہ جلدی ملنے کا وعدہ کیا۔

تازہ ترین