• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لئے مسلسل یہبے بنیاد الزام لگا رہاہے کہ اس نے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررکھی ہیں مگر اس حوالے سے امریکہ کا اپنا کردار کیاہے،خود اس کے قابل اعتماددوست سابق افغان صدر حامد کرزئی نے سرعام اس کابھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔برطانوی میڈیا سے ایک انٹرویو میں انہوںنے گزشتہ روز یہ انکشاف کرکے دنیا کو ششدر کردیا کہعالمی دہشت گرد تنظیم داعش سےامریکہ کے مستقل رابطے ہیں۔وہ خود اسے افغانستان لایا ہے،اسے اسلحہ فراہم کررہا ہے اوراس کے جنگجو افغانستان میں امریکی فوجی اڈے بھی استعمال کررہے ہیں،شناخت چھپانے کے لئے امریکی فوجی اڈوں سے غیرفوجی رنگ کےہیلی کاپٹروں کے ذریعے داعش کی مدد کی جارہی ہے۔سابق افغان صدر نے جوافغان مہاجر کے طور پر کئی سال کوئٹہ میں مہمان نوازی کے لطف اٹھانے کے باوجود پاکستان کے خلاف اب تک زہراگلتے رہے ہیںپہلی بار افغان مسئلے پرپاکستان کے مثبت کردار کی تعریف کی اوردہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغان امریکہ اورنیٹو فورسز کی ناکامی کے اسباب سے پردہ اٹھاتے ہوئے امریکہ کو اس کا ذمہ دار قراردیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کوہمارے سوالات کاجواب دینا ہوگا کہ امریکی فوج اورخفیہ ایجنسیوں کی کڑی نگرانی کے باوجود داعش کیسے افغانستان پہنچی؟پہلے افغانستان میں طالبان اورالقاعدہ کے جنگجو زیادہ تھے،اب داعش کے سب سے زیادہ ہیں۔داعش کواسلحہ کی فراہمی کی خبریں خودافغان حکومت میں موجود لوگ بھی دے رہے ہیں۔ملک بھر میں اس بات کاچرچا ہے کہ داعش امریکی امداد سے چل رہی ہے۔امریکی صدر ٹرمپ نے جس نئی افغان پالیسی کااعلان کرتے ہوئے پاکستان پرالزامات کی بوچھاڑکردی تھی،حامد کرزئی اسے افغانستان میں امن کی بجائے خونریزی کی پالیسی قرار دے چکے ہیں،اس حقیقت سے پوری دنیا واقف ہےکہ اسلحہ تیار کرنے والی بڑی طاقتیں،خصوصاً امریکہ اپنا اسلحہ بیچنے کے لئے بین الاقوامی تنازعات نہ صرف حل نہیں ہونے دیتیں بلکہ انہیں ہوا بھی دیتی ہیں ۔افغانستان میں امریکہ جہاں داعش کواسلحہ فراہم کررہاہے وہاں اس نے افغان حکومت کوبھی جدید بلیک ہاک ہیلی کاپٹر فرہم کردیئے ہیں اوراگلے چار سال تک ان کی فراہمی جاری رکھنے کا معاہدہ کیاہے۔ گویاافغان جنگ کم از کم مزید چارسال تک ختم نہیں ہوگی،جموں وکشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دلانے کیلئے سلامتی کونسل نے70سال پہلے جوقرارداد یں منظورکیں۔اس کامحرک امریکہ بھی تھا اس نے شروع میں پاکستان کا ساتھ دیا مگر بھارت کو بھی اسلحہ بیچتا رہا تاکہ یہ دونوں پڑوسی ملک آپس میں لڑتے رہیں حالانکہ امریکہ چاہتا تو بھارت پردباؤ ڈال کر یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کراسکتا تھا۔آج جب بھارتی افواج مقبوضہ کشمیرکے مسلمانوں کاقتل عام کررہی ہیں تو امریکہ نے بھارت کو روکنے کی بجائے اسے جدید ترین جنگی ہتھیاروں کی فراہمی تیز کردی ہے،زمینی حقائق گواہ ہیں کہ امریکہ افغانستان کا اس خطے میں اپنے فوجی اڈےکے طور پر استعمال جاری رکھنا چاہتا ہےاس لئے افغان مسئلہ کے حل کےلئے سنجیدہ ہی نہیں۔ان دنوں ایک طرف طالبان سے مذاکرات کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری طرف انہیں ملیا میٹ کرنے کےلئے افغانستان میں فوجی قوت بڑھانے کے اعلانات کئے جارہے ہیںماضی میں بھی جب افغان مسئلہ پرمذاکرات شروع ہوئے تو طالبان لیڈروں پرحملے کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کی خبریں چلائی گئیں جس سے بات چیت ناکام ہوگئی ۔امریکی وزرائے خارجہو دفاع اسی ماہ پاکستان آرہے ہیں اورکہا جارہاہے کہ وہ یہاں صدر ٹرمپ کاسخت پیغام پہنچائیں گے۔پیغام جیسا بھی ہوگا قوم اس کاویسا ہی جواب دے گی تاہم عالمی امن خطے کے مفاد اورافغانستان میں استحکام کاتقاضا ہے کہ امریکہ دوغلی پالیسی ترک کرکے حقیقی امن کے لئے سپرپاور کے طور پر اپنا کردار ادا کرے۔اس مقصد کیلئے اسے پاکستان کے کردار کو اہمیت دینا ہوگی اور بھارت کو افغانستان سے دور رکھنا ہوگا۔

تازہ ترین