• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ہم سب کی زندگی میںایک عدد ماموں ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ماموں کے ہونے کا اعتراف کرتےہیںاور کچھ لوگ ماموں کے ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ جو لوگ ماموں کے ہونےسے انکار کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ برصغیر کے معاشروں میں ماموں کو لازمی جز سمجھا جاتا ہے۔ ماموں کی غیر موجودگی معاشروں کو ادھورا چھوڑ دیتی ہے۔ یہ ماموں ہماری والدہ ماجدہ کے بھائی نہیں ہوتے۔ یہ ماموں اور قسم کے ماموں ہوتے ہیں۔ یہ ماموں ہر جگہ آپ سے چپکے رہتے ہیں اور ہر جگہ آپ کو ملتے ہیں۔ آپ ہر جگہ ماموں سے ملتے ہیں۔ آپ کے گھر کے علاوہ پڑوس میں آپ کو ماموں ملتے ہیں۔ دفتر میں آپ کو ماموں ملتے ہیں۔ بازار میں آپ کو ماموں ملتے ہیں۔ دکانوں کے اندر اور دکانوں سے باہر آپ کو ماموں ملتے ہیں۔ ہوٹلوں کے اندر اور ہوٹلوں کے باہر آپ کو ماموں ملتے ہیں۔ ایئر پورٹ، ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹاپوں پر آپ کو ماموں ملتے ہیں۔ روڈ راستوں پر آپ کو ماموں ملتے ہیں۔ آپ گڑھے میں گر جائیں گڑھے میں آپ کو ماموں ملیں گے۔ آپ اسپتال میں داخل ہیں۔ آپ کا آپریشن ہونا ہے وہاں پر بھی آپ کو ماموں مل جائیں گے۔ وہ آپ کو گھٹنے کی بجائے بھیجے کا آپریشن کروانے کا مشورہ دیں گے۔ مٹھائیوں میں آپ کوقلاقند پسند ہے۔ ماموں آپ کو جلیبی کھانے کا مشورہ دیں گے۔ سبزیوں میں آپ کدو پسند کرتے ہیں۔ ماموں آپ کو بینگن کھانے کا مشورہ دیں گے۔ آپ کو کیسے اٹھنا چاہئے، کیسے بیٹھنا چاہئے؟ یہ آپ کو ماموں بتائیں گے۔ آپ کو کب ہنسا چاہئے،آپ کو کب رونا چاہئے؟ یہ بھی آپ کو ماموں بتائیں گے۔ زندگی میں آپ کو کیا بننا چاہئے؟ یہ بھی آپ کو ماموں بتائیں گے۔ کس لڑکی یا لڑکے سے محبت کرنی چاہئے اور کس لڑکی یا لڑکے سے شادی کرنی چاہئے؟ یہ مشورہ بھی آپ کو ماموں دیں گے۔ یہ ماموں ہی ہوتے ہیں جو آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ کس سیاستدان کا دم چھلا بننا چاہئے اور کس سیاستدان کو چھٹی کا دودھ یاد دلوانا چاہئے۔ اگر بدقسمتی سے آپ لکھاری ہیںتو پھر ماموں آپ کو بتائیں گے کہ آپ کو کیا لکھنا چاہئے اور کیا نہیں لکھنا چاہئے۔ آپ کو کیا سوچنا چاہئے اور کیا نہیں سوچنا چاہئے۔ آپ ماموں کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے۔ آپ ماموں کے مشورے کے بغیر سانس تک نہیں لے سکتے۔ ماموں آپ کے زندہ ہونے کی ضمانت ہیں۔
آپ سب کی طرح میری زندگی میں بھی ایک عدد ماموں ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ ماموں کے بھی ماموں ہوتے ہیں۔ پچھلے ہفتے میں مالش کروانے سنگاپور نہیں گیا تھا کہ کالم سے غائب تھا۔ میں نے کئی کالم سنگا پور سے لکھےہیں۔ ہمارا سنگاپور ہمارے شکار پور کے قریب ہے۔ میں پابندی سے کالم لکھتا ہوں۔ اسی سے ہمارا چولہا جلتا ہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بال بچوں، چھوٹے چھوٹے بھائی بہنوں اور بوڑھے نادار ماں اور باپ کا پیٹ پلتاہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کی ایک عدد ماں ہے۔ وہ میری بیوی ہے۔ میری ایک عدد ساس ہے۔ ایک عدد سسر ہے۔ میری چھ سالیاں اور چھ سالے ہیں۔ ان سب کا گزر بسر میرے ایک کالم پر ہوتا ہے۔ آپ کی طرح نیب والے بھی بہت حیران ہوئے تھے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ ایک کالم کی اجرت سے ایک کالونی آباد کرنے جتنا کنبہ کیسے پل سکتا ہے؟ اس بات کو لے کر مجھ پر مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔ مجھےکہا گیاہے کہ ایک کالونی کے برابر کنبہ پالنے کے لئے کالم کے علاوہ میری آمدنی کے دیگر ذرائع کیا ہیں؟ کیس چل رہا ہے۔ اس دوران میں نے عدالت میں درخواست دے دی ہے کہ جہاں میں ایک کالونی آباد کرنے جتنی آبادی والے کنبہ کے ساتھ رہتا ہوں۔ اس جگہ کو کالم کالونی کا نام دیا جائے۔ ہمارے ایک طرف کنواری کالونی ہے اور دوسری طرف شادی شدہ کالونی ہے۔
کچھ سیاستدان میرے دوست ہیں۔ ہمارا اپنا ایک ٹولا ہے۔ ٹولے سے میری مراد ہے کہ ہمارا ایک گروپ ہے۔ ہم گاہے بہ گاہے مالش کروانے کبھی سنگاپور، کبھی ہانگ کانگ اور کبھی بنکاک چلے جاتے ہیں۔ کچھ سادہ کپڑوں میں مشٹنڈے وہاںتک ہمارا پیچھا کرتے ہیں اور ہمارے خرچے پر مالش کرواتے ہیں۔ ہمارا ٹولا یعنی گروپ چار پانچ نہایت محب وطن سیاستدانوں اور ایک لکھاری پر مشتمل ہے۔ وہ مجھے منجھا ہوا صحافی سمجھتے ہیں جو کہ ان کی بھول ہے۔ وہ لکھاری جھوٹی اور من گھڑت کہانیوں پر مبنی کالم لکھتا ہے۔ سیاستدانوں کو اخبار میں چھپی ہوئی یہ بات صحافت سے جڑی لگتی ہے۔ حتیٰ کہ گنجوں کے سرپر بال لگانے والوں کے اشتہار بھی سیاستدانوں کے لئے صحافت ہیں۔ اخباروں میں شائع کالوں کو گورا اور گوروں کو کالا کرنےوالی کریموں کے اشتہار بھی سیاستدانوں کو صحافت لگتے ہیں۔ دیکھا دیکھی سیاستدانوں نے اب اپنے بارے میں اشتہار دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ان اشتہاروں میں سردار سائیوں اور پیر سائیوں کے اپنے کارناموں کے قصے درج ہوتے ہیں۔ مثلاً ہم نے پاکستان کے لئے کیسی کیسی قربانیاں دیں۔ ہم نے لگا تار پاکستان کی بے لوث خدمت کی ہے۔ آنے والے انتخابات میں ہم سردار سائیںاور پیر سائیںآپ کے قیمتی ووٹ کے حقدار ہیں۔ میرے کہنےکا مطلب ہے کہ سیاستدان اخباروں پر چھپی ہوئی بات کو صحافت سمجھتے ہیں۔ آپ سب سیانے ہیں۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ سیاست اورصحافت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ ٹولےمیں شامل سیاستدانوں نے مجھے کہنہ مشق صحافی سمجھ کر اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ میں اکثر اپنےکالموں میں ان کی تعریفوںکے پل باندھتا رہتا ہوں۔ اب یہ ساری باتیں میں نیب کے سراغ رسانوں کو تو نہیں بتا سکتا جو اس کھوج میں لگے رہتےہیں کہ ایک کالم کےبل بوتے پر میں مالش کروانے کے لئے سنگا پور، ہانگ کانگ اور بنکاک کیسے جا سکتا ہوں؟ میری خفیہ آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟ اس طرح کی بے سروپا اور اوٹ پٹانگ باتیں میں صرف آپ سے کر سکتا ہوں۔ ماموں سے بھی نہیں۔

تازہ ترین