• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب بھی کسی ادیب کو کوئی ادبی انعام ملتا ہے، جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ فلاں ادیب کو کیوں نہیں ملا؟ اس کا حق زیادہ تھا۔ اسے کیوں ملا؟ اس کا تو حق ہی نہیں تھا۔ اس سال ادب کا نو بیل انعام برطانیہ کے ناول نگار کازو ایشی گرو( Kazuo Ishiguro) کو ملا ہے۔ اول تو اس ادیب کا نام ہی ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ دوسرے وہ چند ناولوں کا ہی مصنف ہے۔ اس کے صرف دو تین ناول ہی ایسے ہیں جنہیں بہت شہرت ملی ہے۔ یا جو ہمیں بہت پسند ہیں۔ ان میں ایک تو اس کا ناول The Remains of the day ہے۔ اور دوسرا اس کانیا ناول The Buried Giant ہے۔ اس سال اس انعام کے لئے اس کے مقابلے میں کینیڈا کی مارگریٹ ایٹ ووڈ اور جاپان کے مورا کامی جیسے بڑے بڑے نام تھے۔ ایٹ ووڈ اپنے ناول The Handmaid's Tale کی وجہ سے مشہور ہیں۔ بلاشبہ وہ ناول بہت ہی اعلیٰ ادبی تخلیق ہے۔ ایک ایسے Dystopia کی کہانی جہاں اپنے مطلب کے انسان بنائے جاتے ہیں۔ وہ ناول ہمارے اپنے حالات پر بھی صادق آتا ہے۔ آج کل امریکہ میں اس کا ٹی وی سیریل بھی چل رہا ہے۔ مورا کامی صاحب بھی بے شمار ناولوں اور افسانوں کے مصنف ہیں۔ ہر سال ان کا نام اس انعام کے لئے سامنے آتا ہے مگر ہر سال ہی وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔ اب جن صاحب یا صاحبان کو ایشی گرو کے انعام سے اختلاف ہے تو ان کا اختلاف سر آنکھوں پر۔ لیکن ہم تو اس کا پہلا یا دوسرا ناول پڑھ کر ہی اس کے عاشق ہو گئے تھے۔ کیا زبان ہے، کیا اسلوب ہے، اور کیا کہانی ہے۔ اپنے بچپن میں جاپان سے برطانیہ آنے والا ادیب ایسی زبان لکھ رہا ہے جو برطانیہ کے قدیم رہنے والے بھی کیا لکھیں گے۔ اور انگریز نواب زادوں کے اس گھریلو ملازم کے بارے میں لکھ رہا ہے جسے بٹلر کہا جاتا تھا۔ اکڑی ہوئی گردن اور سر اونچا رکھنے والا بٹلر، جو اب کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ انگلستان کی بیسویں صدی کی تیسری، چوتھی دہائی کی تاریخ ہے۔ اور نیا ناول قدیم ترین انگلستان کی کہانی ہے۔ پانچویں صدی کے انگلستان کی کہانی۔ جب رومن انگلستان سے جا چکے تھے اور اینگلو سیکسن قبیلے آپس میں لڑ رہے تھے۔ یادوں کی گمشدگی اور ان کی بازیافت کے لئے طلسماتی سفر کی کہانی۔ بوڑھے میاں بیوی کے خوابوں خیالوں اور ہارنے اور جیتنے کا سفر۔ ہم نے دوسال پہلے یہ ناول پڑھا تھا اور اس داستان نما ناول کے سحر میں گرفتار ہو گئے تھے۔ اب آپ کہتے رہیے کہ فلاں ادیب کو یہ انعام کیوں نہیں ملا اور فلاں فلاں کو کیوں نظر انداز کر دیا گیا۔ ہم تو ایشی گرو کے ساتھ ہیں۔
اب آپ ہریانوی ادب کی طرف آ جایئے۔ ہم نے پاکستان کی دوسری بہت سی زبانوں کے بارے میں تو سنا تھا اور یہ بھی سنا تھا کہ ان زبانوں میں بھی اچھا ادب تخلیق کیا جا رہا ہے۔ مگر ہریانوی زبان اور ادب کے بارے میں بالکل ہی نہیں سنا تھا۔ اب اپنے ڈاکٹر انوار احمد نے اس زبان اور اس کے ادب سے بھی ہمیں روشناس کرا دیا ہے۔ انوار احمد ملتان سے ادبی رسالہ ’’پیلوں‘‘ نکالتے ہیں۔ یہ عام ادبی رسالوں کے مقابلے میں تین زبانوں کا ادب شائع کرتا ہے۔ اردو، پنجابی اور سرائیکی۔ اب تک یہی تینوں زبانیں اس رسالے کی زینت بنتی تھیں۔ لیکن اس بار اس میں ہریانوی ادب و شعر بھی موجود ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ آزادی کے بعد جب دونوں ملکوں میں فسادات ہو ئے تو رہتک حصار کے رہنے والے مہاجر ملتان میں آباد ہوئے۔ یہ رہتکی کہلاتے تھے۔ بہت ہی جاںفشاں قسم کے لوگ۔ لڑنے جھگڑنے والے۔ نئی سے نئی گالیاں ایجاد کرنے والے۔ جو خاندانی جھگڑے وہ اپنے ساتھ ہندوستان سے لائے تھے وہ ملتان میں بھی پروان چڑھتے رہے۔ ہم معافی چاہتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ملتان میں انہیں بہت ہی اجڈ قوم سمجھا جاتا تھا۔ لیکن وہ شاعری بھی کرتے تھے۔اور اپنی زبان میں کرتے تھے۔ اس کا علم ہمیں اس وقت ہوا جب ہمارے مرحوم دوست حشمت وفا ہمیں ان کے ایک مشاعرے میں لے گئے تھے۔ اس مشاعرے میں شاعروں کے لئے کوئی اسٹیج نہیں سجایا گیا تھا۔ فرش پر کوئی چاندنی یا قالین بھی نہیں بچھایا گیا تھا۔ چند چارپائیاں پڑی تھیں۔ اور شاعروں کے ساتھ ان کے سامعین بھی ان چارپائیوں پر ہی بیٹھے تھے۔ مشاعرہ ہوا۔ شاعروں نے اپنا کلام سنایا۔ بہت واہ واہ بھی ہوئی۔ ہماری سمجھ میں کچھ آیا کچھ نہیں آیا۔ مگر اس مشاعرے سے ہم محظوظ بہت ہو ئے۔
لیکن یہ چالیس پچاس سال پہلے کی بات ہے۔ ظاہر ہے اس عرصے میں ان کی نئی نسلیں پڑھ لکھ کر اس قابل ہو گئی ہیں کہ وہ اپنی زبان میں ایسا ادب تخلیق کرنے لگیں جسے دوسری زبانوں کے ادب کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت رسالہ ’’پیلوں‘‘ کا نیا شمارہ دیکھ کر ہم پر آشکار ہوئی۔ دیکھ کر ہم نے اس لئے کہا کہ یہ زبان تھوڑی بہت ہی ہماری سمجھ میں آتی ہے۔ اس زبان کے ادیب اور محقق رانا تصویر احمد نے اس زبان کی قدامت اور اس کی تاریخ بیان کی ہے۔ اور اس زبان کے دو افسانے، ایک گیت، ایک نظم اور دو غزلیں رسالے میں پیش کی ہیں۔ اب افسانے کا کوئی ٹکڑا تو یہاں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ایک غزل کے چند شعر آپ بھی پڑھ لیجئے۔ غزل اختر دولتالوی کی ہے،
رستے کد پتھریلے تھے
لوگ چلن میں ڈھیلے تھے
یوہ سب کچھ تو ہونا تھا
دودھ کے راکھی بلے تھے
بھوت بگڑ کے بھاجے نھی
گھر تو ہم نے کیلے تھے
اختر آنجھو سوکے نھی
موسم گیلے گیلے تھے
دیکھئے، یہ قدیم اردو ہی تو ہے۔ انوار احمد یہ سلسلہ جاری رکھو۔ اس زبان میں اور بھی اچھا ادب تخلیق ہونے لگے گا۔ ہریانہ تو اب ہندوستان میں رہ گیا ہے۔ معلوم کیجئے کہ وہاں اس زبان میں کیا کچھ تخلیق ہو رہا ہے۔

تازہ ترین