• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کے حوالے سے بہت بڑا اسکینڈل منظر عام پر آیا ۔ انٹری ٹیسٹ کا پرچہ لیک ہونے کا اعتراف خود حکومت کے اعلیٰ سرکاری عہدیداران ایک پریس کانفرنس میںبھی کر چکے ہیں۔ یہ بات کس قدر باعث شرم اور افسوس ناک ہے کہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے سابق قائم مقام وائس چانسلر نے 200طلبہ سے بھاری رشوت وصول کرکے انہیں پرچہ تھما دیا۔ یہ 200طلبہ صاحب حیثیت ہوں گے۔ضروری ہے کہ جو ہزاروں اسٹوڈنٹس قرضے لے کر نجی اکیڈمیوں میں انٹری ٹیسٹ کی تیاریاں کر تے رہے ان کا قصور اور جرم بتایا جائے۔ ان کا قصور یا جرم یہ ہے کہ وہ غریب تھے یا بااصول تھے یا ان کا رابطہ اس بدکردار وائس چانسلر سے نہ ہوسکا، یا پھر سودا طے نہ ہوسکا۔ بتایا گیا ہے کہ موصوف 20لاکھ روپے فی اسٹوڈنٹس سے لے کر ان کو سوالات بتاتے رہے۔ اب دو سو طلبہ کی رقم کو 20لاکھ روپے سے ضرب دیں، سوچیں کیا رقم بنے گی؟ یقینی بات ہے کہ اس مکروہ کاروبار میں اور بھی لوگ قصور وار ہوں گے۔ اب تک 5پروفیسرز کے نام بھی آچکے ہیں جنہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ یہاں پر یہ دھندا دس سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ ان دس برسوں میں سینکڑوں ایسے ڈاکٹر بنے ہوں گے جو کسی صورت ڈاکٹر بننے کے اہل نہیں تھے مگر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی مہربانی سے آج وہ ڈاکٹر ہیں اور بیرون ممالک میں بھی ہیں اور لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ شیخ زائد اسپتال کے ایک سابق چیئرمین جو مرحوم ہو چکے ہیں۔ جب وہ شیخ زائد اسپتال میں بطور چیئرمین ریٹائرمنٹ کے قریب تھے تب انہوں نے صرف کنگ ایڈور میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کو نیچا دکھانے کے لئے یو ایس ایچ کا خاکہ بنایا تھا تاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ یہاں مزے لوٹیں ۔ اس دوران جنرل مشرف کی حکومت آگئی اور وہ جنرل مشرف کے ہم نوالہ وہم پیالہ تھے بلکہ اور بھی بہت کچھ، جس کا ذکر ہم کر نہیں سکتے۔ مشرف نے اسی کو پنجاب کا وزیر صحت بنا دیا اور پھر اسی نے اس منصوبے پر اور تیزی کے ساتھ کام شروع کردیا جبکہ دنیا بھر میں کوئی ایسی یونیورسٹی نہ کبھی کسی نے دیکھی اور نہ سنی ہے جو خود نہ تو ٹیچنگ انسٹیٹیوشن ہے، نہ وہ ریسرچ کرتی ہے، نہ اس کی اپنی عمارت ہے بلکہ موصوف نے مشرف سے تعلقات کی بنا پر شیخ زائد اسپتال کے سکینہ انسٹیٹیوٹ آف نرسنگ کی عمارت پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ اس وقت شیخ زائد اسپتال کے چیئرمین پروفیسر انوار اے خان تھے جو بہت شریف النفس اور اپنی فیلڈ میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں اور اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔
حقیقت کچھ یوں ہے کہ کے ای ایم سی کے آخری پرنسپل اور پہلے وائس چانسلر (کے ای ایم یو) پروفیسر ممتاز حسن (ستارہ امتیاز) ان دنوں کے ای ایم سی کو یونیورسٹی بنانے کے لئے کوشاں تھے۔ ویسے بھی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) نہ صرف پاکستان بلکہ برصغیر کا میڈیکل ایجوکیشن کا ایک پرائم ادارہ ہے۔ انہوں نے کے ای ایم سی کو یونیورسٹی بنانے کے لئے انتھک محنت کی۔ ہمیں یاد ہے کہ کے ای ایم سی میں ایک تقریب تھی اور چوہدری پرویز الٰہی بطور وزیر اعلیٰ اس تقریب میں آئے تھے۔ وہاں پر انہوں نے ادارے کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا بلکہ یہ کہا کہ تمام سرکاری میڈیکل کالج کے ای ایم یو سے منسلک ہوں گے اور انہیں کے ای ایم یو کی ڈگری ملے گی۔ البتہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے بارے میں بعد میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد ڈاکٹر محمود چوہدری مرحوم نے راتوں رات جنرل مشرف سے کہہ کر فیصلہ تبدیل کرالیا اور کہا گیا کہ تمام سرکاری میڈیکل کالج اور پرائیویٹ میڈیکل کالج کا الحاق یو ایس ایس کے ساتھ ہوگا البتہ کے ای ایم یو اپنی ڈگری اپنے اسٹوڈنٹس کو جاری کرے گا۔ اسی دوران فاطمہ جناح میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کی طالبات اور اساتذہ نے یو ایس ایچ سے الحاق کی سخت مخالفت کر دی بلکہ پورے پنجاب کے میڈیکل اسٹوڈنٹس نے یو ایچ ایس سےالحاق کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ اسٹوڈنٹس پر آنسو گیس چلائی گئی۔ ایف جے ایم سی کامیاب رہا اور اس کا الحاق بدستور پنجاب یونیورسٹی سے رہا۔ پنجاب یونیورسٹی انگریزوں کے دور سے اور قیام پاکستان کے بعد پچاس، ساٹھ برس تک کبھی پورے ملک کے اور بعد میں پنجاب کے تمام سرکاری میڈیکل کالجوں کے امتحانات لیتی رہی۔ آج تک اس قسم کا کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ چھوٹے میاں صاحب یہ انٹری ٹیسٹ اب ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ آپ ایک اچھے اور درددل رکھنے والے انسان ہیں۔ اس مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھیں اور جن لوگوں نے پیسے لے کر پرچہ لیک کیا ہے ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کریں اور اس کے ایک اور سابق وائس چانسلر نے اپنے ہم زلف کو یہاں کنٹرولر لگایا ہوا تھا ان سے بھی سخت ترین پوچھ گچھ کریں کیونکہ وہ آپ کے ساتھ اپنی قربت کا بہت اظہار کرتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سال بھر میں تین سو سے زائد امتحانات لیتی ہے، آج تک اس سطح پر کبھی کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ پھر یو ایچ سی کا آپ سال برس پرانا ریکارڈ سامنے لائیں، صرف دو پرائیویٹ کالجوں کے اسٹوڈنٹس ہی ٹاپ کرتے نظر آئیں گے بلکہ ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج والے تو اس حوالے سے بہت کچھ کہتے ہیں، ہم کچھ کہیں گے تو برا منایا جائے گا۔
یو ایچ ایس کے بارے میں سابق چیف جسٹس، جسٹس مجدد مرزا کی سربراہی میں بننے والی ایک کمیٹی کی رپورٹ بھی منگوائی جائے، اس کا مطالعہ بھی کیا جائے، اس انکوائری کمیٹی میں پروفیسر ڈاکٹر خواجہ صادق حسین سابق پرنسپل کے ای ایم سی جیسا ایماندار شخص شامل تھا۔
یہ کیسی یونیورسٹی تھی جس کے پاس نہ لیبارٹریاں، نہ اسٹاف، نہ عمارت اور نہ اساتذہ تھے۔ ایک مدت سے یو ایچ ایس کے بارے میں باتیں ہو رہی تھیں مگر اس ادارے کے کچھ کرتا دھرتا اتنے لمبے ہاتھ رکھتے تھے کہ کوئی انہیں کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس کا ایک سابق وائس چانسلر اپنی پرائیویٹ پریکٹس راولپنڈی میں بھی کرتا تھا، ساتھ یہاں بھی وی سی تھا۔ وہ اپنی سرکاری گاڑی پر ہر دو تین روز بعد راولپنڈی چلا جاتا تھا۔ آج شعبہ صحت میں کرپشن انتہا کو پہنچ چکی ہے مگر سب خاموش ہیں کیوں؟ یہاں بھی ایک دن پاناما سے بڑا اسکینڈل سامنے آئےگا۔
کتنی دلچسپ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر محمود چوہدری مرحوم وزیر صحت ہوتے ہوئے خود ہی یو ایچ ایس کے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین بن گئے تھے۔ پھر انہوں نے ایک ایسے شخص کو وی سی لگایا جس کی ذات متنازع تھی جس پر کئی طرح کے الزامات تھے اور سپریم کورٹ نے انہیں مختلف وجوہات پر ملازمت سے برخاست کرنے کا حکم دیا تھا۔ کرپشن کے جو بیج وہ بو گئے تھے آج وہ تناور درخت بن چکا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج 45 ہزار اسٹوڈنٹس انتہائی ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں سوائے ان 200اسٹوڈنٹس کے جنہوں نے لاکھوں روپے رشوت دے کر پرچے کے سوالات حاصل کر لئے تھے۔ میاں صاحب ان تمام وائس چانسلرز صاحبان اور یو ایچ ایس کے عملے سے جنہوں نے لاکھوں روپے بدنیتی سے کمائے ہیں ان سے وصول کرکے انہیں سرعام سزا دی جائے، اب الٹا لٹکانے والے نعرے کو عملی جامہ بھی پہنا دیں۔ حکومت نے پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود جیسے انتہائی ایماندار فرد کو یو ایس ایچ کا اضافی چارج دے کر قابل تعریف قدم اٹھایا ہے اور یقیناً وہ جب اس واقعہ کی انکوائری کریں گے تو بہت کچھ سامنے آئے گا۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے پروفیسر ڈاکٹر اجمل حسن نقوی نے بالکل درست کہا کہ اس سنگین واقعہ کے بعد انٹری ٹیسٹ اخلاقی حیثیت کھو چکا ہے لہٰذا انٹری ٹیسٹ کو ختم کیا جائے۔ اس اسکینڈل کی مرکزی کردار ڈپٹی کنٹرولراور اسسٹنٹ ڈائریکٹر مانیٹرنگ کو شامل تفتیش کر لیا گیا ہے اور انہیں جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ دوسری جانب اندر کے ذرائع بتاتے ہیں کہ اس اسکینڈل میں ملوث لوگوں نے اپنے سفارشی گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک جونیئر شخص کو جو کہ یہاں پر فیلو شپ کرنے آیا تھا، اس کو پرو وائس چانسلر اور پھر قائم مقام وائس چانسلر کیوں بنایا گیا؟ اور پھر اس کا نام مستقل وائس چانسلروں کی لسٹ میں ہے۔ میاں صاحب یہ کوئی چھوٹا واقعہ نہیں، اس کے ذمہ داران کو کڑی سزا ملنی چاہئے۔

تازہ ترین