• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف جب سے اقتدار سے محروم ہوئے ہیں وہ اور انکی پارٹی عجیب شش و پنج میں مبتلا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ حکومتی پارٹی کے سربراہ کو اس وقت اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا ہے جب اسکی پارٹی برسرِ اقتدار تھی۔ اگرچہ گزشتہ حکومت میں وزیر ِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی انکی حکومت کے دوران ہی نا اہل قرار دے دیا گیا تھا لیکن چونکہ وہ اپنی پارٹی کے سربراہ نہیں تھے اور نہ ہی انہیں کرپشن کی بنیاد پر نکالا گیا تھا۔ اس لئے انکی اقتدار سے علیحدگی کے بعد جمہوری عمل چلتا رہا اور اداروں کے ٹکرائو کا جو شور آجکل سنائی دے رہا ہے ویسا شور شرابا اس وقت سنائی نہیں دیا۔ نواز لیگ کی کنفیوژن کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ بیک وقت حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں بھی۔ وہ اپوزیشن کی طرح (نام بتائے بغیر ) کچھ طاقتوں کے خلاف انتقام کی دہائی بھی دے رہے ہیں اور اپنی حکومت ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری اخراجات پر اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے کبھی اسلام آباد سے لاہور تک روڈ مارچ کرتے ہیں۔ جہاں ہر جگہ انہیں حکومتی پروٹوکول دیا جاتا ہے اور کبھی عدالتوں میں اسی طرح حاضر ہوتے ہیں جیسے کسی جلسہ گاہ میں آئے ہوں۔ اپنی حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ شاید اس خفت کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جو 1999میں پرویز مشرف سے معافی مانگ کر سعودی عرب بھاگ جانے میں ہوئی تھی۔ ان کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ پہلے تو وہ اس ’’معافی نامے‘‘ سے یکسر منکر تھے لیکن جب اسکی خبریں میڈیا میں آنا شروع ہوئیں تو انہوں نے اس معافی نامے کو تسلیم تو کر لیا مگر مدّت 10سال کی بجائے 5سال بتائی ۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر ملک میں ان کی حکومت نہ ہوتی تو وہ اس طرح شاہانہ انداز سے پاکستان کبھی واپس نہ آتے اور ابھی بھی کوئی پتہ نہیں کہ اگر عدالتوں کی طرف سے ان کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوگیا تو ان کے باقی اہل خانہ واپس آتے بھی ہیں یا نہیں۔
اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ نواز شریف آخر کیا چاہتے ہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ جب سے وہ ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے نا اہل ہوئے ہیں ۔ وہ حکومت سے نکالے جانے کا شکوہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں سازش کے تحت اقتدار سے برطرف کیا گیا ہے ۔ اسی طرح انکی صاحبزادی بھی ان کے خلاف سازشوں کا ذکر متواتر کر رہی ہیں۔ لیکن انہوں نے یا انکی پارٹی کے کسی فرد نے کھل کر اس سازش کا اظہار نہیں کیا کہ انکے خلاف کون سازش کر رہا ہے۔ اور اسکی وجہ کیا ہے ؟ بظاہر نواز شریف عدالتی فیصلے کو ہدفِ تنقید بنائے ہوئے ہیں لیکن ان کا ’’روئے سخن ‘‘ کہیں اور ہے۔ اور سب جانتے ہیں کہ وہ کس ادارے کو ٹارگٹ کیے ہوئے ہیں۔ حالانکہ فوج کے کمانڈر انچیف جنرل قمر جاوید باجوہ واشگاف الفاظ میں اعلان کر چکے ہیں کہ پانامہ کیس میں فوج کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی یہ کیس فوج نے بنایا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ فوج کے خلاف زبردست بیان بازی کے باوجود فوج کی طرف سے بظاہر کوئی سخت بیان یا اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ یہ درست ہے کہ سول ملٹری ریلیشن شپ ہماری ریاست کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اور آمروں کی حماقت نےپاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے لیکن موجودہ فوجی قیادت تو علی الاعلان جمہوریت کی بالادستی کی داعی ہے۔ پھر میاں صاحب کس کے بارے میں کیا کہنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے گلے شکوے سن سن کر عوام بھی کنفیوژن کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے ہر محّب ِ وطن اور باشعور شہری کا ایمان ہے کہ پاکستان میں جمہوریت پروان چڑھے اور پھلے پھولے کیونکہ دنیا کا کوئی ملک جمہوری عمل کے بغیر نہ تو ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی مہذّب ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال کئی ملک امیر تو ہیں لیکن جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے مہذّب نہیںہیں۔ جمہوریت صرف انتخابات کروانے سے نہیں آتی بلکہ اس کے لئے جمہوری رویوں کو فروغ دینا پڑتا ہے جو شاید اُن لوگوں کے لئے ممکن ہی نہیںہے جو ڈکٹیٹروں کی پیداوار ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ ’’من مانی‘‘ کے ماحول میں پلے بڑھے ہوتے ہیں۔وہ ساری عمر سازشیں کرنے اور عوامی حاکمیّت کے خلاف غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار بننے کے بعد سب سے بڑے جمہوریت پسند اور انقلابی بن جائیں تو یقیناً سب کو حیرت ہوتی ہے۔ بہر حال یہ ایک سنہری موقع ہے کہ نواز شریف عوام کو کنفیوژن میں مبتلا کرنے کی بجائے کھل کر بتائیں کہ ان کے خلاف کیا سازشیں ہو رہی ہیں، کون کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے۔ تاکہ اس وقت پاکستان میں جو جمہوری عمل رواں دواں ہے اسے لاحق خطرات سے نپٹا جا سکے۔ نواز شریف گول مول باتیں کرنے کی بجائے اصل مدّعے پر آئیں اور قوم کو بتائیں کہ اصل کہانی کیا ہے۔ ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ ان کے خلاف جو مالیاتی بدعنوانی کے مقدمے شروع ہو چکے ہیں ۔ ان میں سے نکلنے کے لئے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ اور وہ محض ان سے بچنے کے لئے ’’ چور مچائے شور‘‘ کے مصداق واویلا کر رہے ہیں۔ اگر ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو وہ عوام کو آگاہ کریں تاکہ وہ جمہوریت کو بچانے کے لئے میدان میں نکلیں ورنہ اگر سب کچھ ان کی جائیدادوں کے جائز ناجائز ہونے کی بات ہے تو اسے عدالتوں میں ثابت کریں اور عوام میں مزید کنفیوژن نہ پھیلائیں۔

 

تازہ ترین