• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

27 برس جیل میں قید کاٹنے کے بعد نیلسن منڈیلا جب رہا ہوکر آزاد دنیا میں واپس آئے تو ہر چیز بدلنے کے ساتھ نیلسن منڈیلا خود بھی بدل چکے تھے اور طویل عرصے قید و بند کی صعوبتوں نے ایک نوجوان کو ادھیڑ عمر شخص میں تبدیل کردیا تھا۔ آج سفید فام اقلیت کے ظلم کا سورج غروب ہوچکا تھا اور سب یہ جان چکے تھے کہ نیلسن منڈیلا ہی ملک کے آئندہ صدر ہوں گے۔ سفید فام اقلیت کو یہ خوف تھا کہ سیاہ فام نیلسن منڈیلا کے صدر بننے کے بعد اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ اسی طرح وہ جیلر جس نے جیل میں کئی عرصے تک نیلسن منڈیلا کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کیا، اُنہیں اذیتیں دیں اور ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا، بھی اِس خوف شکار تھا کہ نیلسن منڈیلا اپنی رہائی کے بعد اُس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے لیکن جیلر کو اُس وقت حیرانی ہوئی جب نیلسن منڈیلا جیل سے نکلتے ہی واپس مڑے، جیلر سے مصافحہ کیا، اُس کے اہل خانہ کی خیریت دریافت کی اور گلے لگاتے ہوئے اُس کا شکریہ ادا کیا۔
نیلسن منڈیلا رہائی کے کچھ سال بعد عام انتخابات میں جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوئے۔ اُن کے برسراقتدار آنے کے بعد اُمید کی جارہی تھی کہ وہ عدلیہ کے سفید فام ججز اور وہ وکلا جنہوں نے اُنہیں بغیر کسی جرم عمر قید کی سزا دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا انتقام لیں گے مگر نیلسن منڈیلا نے قید کے دوران ہر ایک کو دل سے معاف کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا سبق سیکھ لیا تھا۔ نیلسن منڈیلا کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جنوبی افریقہ کا سفید فام وکیل پرسی یوتر جو سیاہ فاموں سے سخت نفرت کرتا تھا اور اُنہیں غلام سمجھتا تھا، نے نیلسن منڈیلا پر بغاوت کے مقدمے میں حکومت کی وکالت کرتے ہوئے عدلیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اُنہیں عمر قید کی سزا دلوائی اور زنجیروں میں جکڑ کر جنوبی افریقہ کی بدنام زمانہ جیل میں منتقل کروایا جہاں نیلسن منڈیلا نے اپنی جوانی کے قیمتی سال گزارے حتیٰ کہ اُنہیں والدہ اور بیٹے کی آخری رسومات میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دی گئی لیکن جب نیلسن منڈیلا جیل سے رہائی کے بعد ملک کے صدر منتخب ہوئے تو متعصب سفید فام وکیل پرسی یوتر ملک سے فرار ہونے کا منصوبہ بنانے لگا۔ اسی دوران نیلسن منڈیلا نے اُسے صدارتی محل میں کھانے پر مدعو کرلیا لیکن پرسی اس سوچ میں پڑگیا کہ اگر وہ صدارتی محل گیا تو وہاں سے اُسے جیل بھیج دیا جائے گا یا پھر قتل کردیا جائے گا مگر جب وہ صدارتی محل پہنچا تو یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ نیلسن منڈیلا نے خود دروازے پر کھڑے ہوکر اُسے خوش آمدید کہا اور خاطر تواضع کے بعد اس کا شکریہ ادا کیا۔ نیلسن منڈیلا کا حسن سلوک دیکھ کر پرسی نے اُن سے کہا کہ میں نے تو آپ کے ساتھ بڑی زیادتیاں کی ہیں اور میں اس احسان کا مستحق بھی نہیں تھا جس پر نیلسن منڈیلا نے کہا کہ ’’میں نے تمہیں دل سے معاف کردیا ہے۔‘‘ یہ سن کر سفید فام متعصب وکیل دھاڑے مار مار کر رونے لگا اور اُسے یہ اعتراف کرنا پڑا کہ نیلسن منڈیلا ایک عظیم لیڈر ہیں۔
میں نیلسن منڈیلا کی شخصیت سے بہت متاثر ہوں اور اُن کی سوانح عمری "Long Walk to Freedom"کئی بار پڑھ چکا ہوں جس سے مجھے یہ سبق ملا کہ اگر ہم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور نفرتوں کو دل سے نکال دیں تو ہم بھی نیلسن منڈیلا کی سوچ پر عمل کرسکتے ہیں۔ میری زندگی میں بھی کچھ ایسے واقعات پیش آئے جس سے میرے لہجے میں تلخی پیدا ہوئی اور اس سے میری صلاحیتیں متاثر ہوئیں لیکن جب میں نے نیلسن منڈیلا کی سوانح عمری کا مطالعہ کیا اور مذکورہ بالا واقعات کا بغور جائزہ لیا تو میری زندگی میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ گزشتہ دنوں جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کنونشن سینٹر اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل کے اراکین سے خطاب کررہے تھے تو میں نے پہلی بار اُن کی شخصیت میں تبدیلی محسوس کی۔ اس سے قبل میں نے نواز شریف کو بڑا تحمل مزاج، نرم لہجے میں بات کرنے والا، بردبار اور شائستہ پایا جنہوں نے کبھی کسی کو گالی کا جواب گالی سے نہیں دیا حتیٰ کہ مخالفین کی جانب سے اپنی ذات اور خاندان پر لگنے والے الزامات بھی بڑے تحمل سے برداشت کئے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ کنونشن سینٹر میں خطاب کے دوران پہلی بار میں نے اُن کے لہجے میں تلخی محسوس کی۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’’میرے ساتھ ہونے والی بے انصافی اور ناروا سلوک سے میری دل آزاری ہوئی ہے جس کا میرے دل میں بہت غصہ ہے اور اگر اس کا اعتراف نہ کیا تو یہ منافقت ہوگی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’مجھے اس جرم میں نااہل کیا گیا کہ میں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی اور ملک کے منتخب وزیراعظم کو پانامہ میں کچھ نہ ملنے پر اقامہ پر نااہل کردیا گیا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے نواز شریف کے چہرے پر دکھ اور لہجے میں تلخی کے آثار نمایاں تھے۔
ظلم، زیادتیاں اور ناانصافیاں انسان کو تلخ (Bitter) بنادیتی ہیں اور یہی تلخیاں اُسے انتقام کی جانب راغب کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جے آئی ٹی کے ناروا سلوک، ’’سسلین مافیا‘‘ اور ’’گاڈ فادر‘‘ جیسے القابات سے نواز شریف کی دل شکنی ہوئی جو اُن کے لہجے میں تلخی کا سبب بنی۔ ایک عام آدمی اور لیڈر میں یہ فرق ہوتا ہے کہ عام آدمی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور بے انصافیوں کو دل میں رکھ کر زندگی بھر انتقام کی آگ میں جلتا رہتا ہے مگر ایک لیڈر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں پر ماتم کرنے کے بجائے انہیں بھلا کر کامیابی کی منزل کی جانب پیش قدمی کرتا ہے جیسا کہ نیلسن منڈیلا نے کیا۔ نیلسن منڈیلا چاہتے تو اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ساتھ کی گئی زیادتیوں اور ناانصافیوں کا بدلہ مخالفین سے لے سکتے تھے جس کے نتیجے میں ملک خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا تھا مگر انہوں نے ہر کسی کو دل سے معاف کرکے عظیم لیڈر ہونے کا ثبوت دیا جس پر اُنہیں نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا۔ ان کی یہ کہاوت مشہور ہے کہ ’’ہر چیز اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک ممکن نہ ہوجائے۔‘‘
آج نواز شریف جس دوراہے پر کھڑے ہیں، وہاں سے دو راستے جاتے ہیں۔ ایک راستہ جہاں وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم، زیادتیوں اور ناانصافیوں پر ماتم کرتے ہوئے انتقام کی سیاست اپنائیں اور دوسرا راستہ زیادتیوں اور ناانصافیوں کو دل سے معاف کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ یہ فیصلہ یقیناََ آسان نہیں لیکن اگر وہ تلخیاں بھلانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر وہ نیلسن منڈیلا جیسے لیڈروں کی صف میں شامل ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین