• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعری کا تعلق دل سے اور دل محبت کی آماجگاہ ہے۔ شاعری اس لئے بھلی لگتی ہے کہ اس میں تلخ بات کو میٹھے لہجے میں لپیٹ کر بیان کیا جاسکتا ہے۔ کتنی بھی کربناک حقیقت ہو شاعر جمالیاتی لطافت کے ذریعے اسے نہ صرف دلفریب بنا دیتا ہے بلکہ لفظوں میں معنی کا ایک پورا جہان سمو کر توجیحات اور تشریحات کے نئے دَر اور زاویے روشناس کراتا ہے۔ شاعری میں ہر لفظ خاص سانچے میں ڈھلا ہوا ہوتا ہے مگر علامتیں، تشبیہات اور استعارات کے طور پر برتے جانے والے لفظ ہیروں کی طرح ہوتے ہیں جن سے ہر لمحہ نئی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ حافظہ کمزور پڑ سکتا ہے مگر دل میں بسے لفظ اور چہرے محو نہیں ہوتے۔ نثر یاد نہیں رکھی جاسکتی مگر شعر اپنی دل آویزی، معنی خیزی اور تاثیر کی وجہ سے بہت جلد از بر ہو جاتے ہیں بلکہ کچھ تو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر کے ہماری روز مرہ زندگی کا حِصّہ بن جاتے ہیں۔ چین سے ہماری دوستی کی تاریخ چین کی آزادی کے سفر کے آغاز سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم پہلے آزاد ہوئے مگر ہماری آزادی صرف دنیا کے نقشے پر اندراج تک محدود رہی جبکہ چین معاشی اور سیاسی حوالے سے خود کو خود مختار ملک متعارف کرانے میں بہت جلدی کامیاب ہوگیا۔ سیاسی استحکام کے علاوہ چینی حکومت اور عوام کی کمٹ منٹ اور ارادی قوت کا اس میں زیادہ عمل دَخل ہے۔ مصنوعات کی تیاری سے لے کر عالمی مارکیٹ تک رسائی اور ہر ملک کی استعداد کے مطابق اشیاء کی تیاری نے چینی مصنوعات کو دنیا کی ضرورت بنا دیا۔ چین مسلسل معاشی آزادی کی سڑک پر آگے بڑھتا جا رہا ہے جبکہ ہمارے پاس آپسی رنجشوں کے علاوہ کوئی اور معاملہ اہمیت کا حامل نہیں۔ ملکی ترقی پر باہمی اتفاق سے سوچنے اور فیصلے کرنے کی بجائے ہماری زیادہ توجہ اور وقت حکومت وقت کو نیچا دکھانے اور اس کے شروع کئے گئے منصوبوں کو نا کام کرنے کی کوششوں میں صرف ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی تمام دوڑ دھوپ کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ کسی ترقیاتی منصوبے کی تکمیل سے ملک کو فائدہ ہو نہ ہو مگر کسی اور جماعت کو کریڈٹ بالکل نہ مِلے۔ ان رنجشوں اور سیاسی و جمہوری عدم استحکام کی وجہ سے آج تک ہم آزادی کا اصل چہرہ دیکھنے سے محروم ہیں۔ آج کل جب کہ پاکستان میں چین کی مدد سے بہت سے منصوبے تکمیل کی طرف گامزن ہیں اور سی پیک بھی دونوں کے لئے مشترکہ اہمیت کا حامل ہے تو زبانی حب الوطنی کے نعرے لگانے والوں کو چین کی نصف صدی کی موجودہ جدو جہد کے بارے میں آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ شاید اپوزیشن کو بھی یہ احساس ہو کہ صرف رکاوٹیں ڈالنا اور دھرنے دینا ان کا منصب نہیں بلکہ حکومت کو وقت اور حالات کے مطابق مشورے دینا، درست کاموں میں ساتھ دینا اور غلط پالیسیوں پر مثبت تنقید کرنا اِن کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ پاکستان میں تعینات چین کے سفیر Sun Weidong اپنی مدت پوری کر کے واپس جا رہے ہیں۔ چین کے قومی دن اور سفیر کی الوداعی تقریب کو پنجاب حکومت نے اس طرح منایا کہ اسے ہمیشہ کے لئے یاد گار بنا دیا۔ پنجابی زبان کے عالمی شہرت کے حامل خوبصورت صوفیانہ، لوک کلام اور اُس پر دلفریب رقص جو پنجاب کی ثقافت کا آئینہ دار ہے کے ساتھ ساتھ پاکستانی گلوکاروں نے چینی زبان جبکہ چینی فنکارہ نے جیوے جیوے پاکستان گا کر حاضرین کے دل موہ لئے چین اور پاکستان کے درمیان عوام سے عوام تک دوستی کی تاریخ نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط ہے مگر دلوں سے دلوں تک رسائی اور پاکستان کو معاشی آزادی کی راہ پر ڈالنے کا سہرا خادمِ پنجاب کے سَر ہے۔ جنھوں نے چین کے سفیر کو الوداع کہتے ہوئے محبت اور اخلاص کے پھول پیش کئے اور آئندہ بھی اِسی جذبے سے کام کرنے کا عندیہ دیا۔ اِس تقریب میں تمام حاضرین کو پاک چین دوستی کے رنگوں میں ڈھلے خوبصورت کپ اور قلم بھی دئیے گئے۔ خیر قلم کا تحفہ تو بہت اعلیٰ اور خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن کپ میں چائے، قہوہ پیتے ہوئے اُس دوستی کی مہک کو محسوس کیا جاسکتا ہے جو ہمارے وجود میں رچ بس چکی ہے اِس کے ساتھ یہ عہد بھی کہ ہم نے یہ دوستی نبھا کر دنیا کو دکھانا ہے اور یہ کہ ہم ترقی اور چیلنجز کی راہ میں اکٹھے ہیں اور اکٹھے رہیں گے۔ چینی سفیر نے تقریر کرتے ہوئے پنجاب میں بسنے والے پنج آب یعنی پانچ دریاؤں کےایک دریا کا حصہ ہونے کو دلکش الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ آئیے ہم سب دریا کا روپ دھار لیں جو مختلف سمتوں میں بہتے ہوئے زمین کا سبزے اور رنگوں سے سنگھار کرتے اور اُس کی جھولی مُرادوں کے میوؤں سے بھرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور پھر اِک مک ہو جاتے ہیں۔ دریا کا استعارہ بڑا ذو معنی اور وسیع تر خیر سے جُڑا ہوا ہے۔ دریا ہر وقت بہتا یعنی حرکت میں رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔ دریا بن کر آگے بڑھنا مسلسل ترقی کی شاہراہ پر سفر کرنے کے مترادف ہے دریا کسی بھی حالت میں سفر ترک نہیں کرتا۔ اگر پہاڑ کا اڑیل پتھر سامنے آ کھڑا ہو یا زمانہ مصنوعی رکاوٹیں حائل کر دے تو وہ اپنا راستہ بدل لیتا ہے مگر چلتا رہتا ہے۔ آر پار ہونے والی سازشیں اُسے ٹھہرنے اور سفر موقوف کرنے پر مجبور نہیں کرسکتیں۔ پاکستان اور چین کی دوستی بھی ایک طاقتور دریا کی طرح ہے۔ دونوں ملک زمانے کی بچھائی چالوں اور سازشوں کو عبور کرتے اپنا الگ راستہ بناتے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ اورنج ٹرین کا تحفہ بھی پاکستان کو موصول ہو گیا ہے۔ یہ وہ منصوبہ ہے جو بغیر سود کے قرضے پر مشتمل ہے۔ عدالت سے استدعا ہے کہ اورنج ٹرین کے عوامی منصوبے میں دیا گیا حکم امتناعی ختم کرنے پر غور کرے کیونکہ اِس پر نہ صرف کثیر سرمایہ خرچ ہو چکا ہے بلکہ سڑکوں کی جگہ جگہ سے کھدائی کے باعث شہری مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور آمدو رفت کی پریشانی سے بھی دو چار ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک عظیم ملک کے طور پر اپنی پہچان رقم کرے گا اور اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار ہوگا۔ جو چند کمزور اور مفاد پرست لوگوں کے ذریعے ہمارے نقشے میں دراڑیں ڈالنے کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے جبکہ ظلم کرنے اور ظلم کا ساتھ دینے والوں سے وقت حساب ضرور لیتا ہے۔ آج ہم نے چین کے ساتھ جو منصوبے شروع کر رکھے ہیں اُن سے چین کا مفاد اور بقالئےوابستہ ہے مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ چین نے اُس وقت ہمارا ساتھ دیا، ہمارا ہاتھ پکڑا، ہماری ڈھارس بندھائی اور ہمارے موقف کی گواہی دی جب دنیا نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا تھا۔ مشکل میں ساتھ دینے والوں کو بھولنا ہماری اقدار میں شامل نہیں خدا کرے پاک چین دوستی کا دریا سدا بہتا رہے اور زندگی کو خوشحالی اور تابناکی عطا کرتا رہے۔

تازہ ترین