• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساٹھ کی دہائی کے وسط میں جب امریکی خفیہ ادارے چے گوئرا کی تلاش میں دنیا کو کھنگال ڈالنے پر تلے تھے، انقلاب کے دیوانہ وار رومانس کی سب سے بڑی علامت سمجھا جانے والا یہ نوجوان کراچی کے ساحل پر اُونٹ کی سواری کے مزے اُڑا رہا تھا۔ یہ بات دنیا کے کسی بھی شہری کی طرح شاید کسی پاکستانی کے لئے بھی قابل یقین نہیں ہے۔
پیر9 اکتوبر کو کیوبا کے شہر سانتا کلارا میں نوجوان انقلابی کی پچاسویں برسی جشن کی طرح منائی گئی۔ سانتا کلارا وہی مقام ہے جہاں چے گوئرانے ا نیس سو اُنسٹھ میں فیڈل کاسترو، رائول کاسترو اور چند مسلح ساتھیوں کے ساتھ کیوبا پر مسلط فل گینسیو بتیستا (FulGencio Batista) کا تختہ الٹ دیا تھا۔ کیوبا کے موجودہ صد ر رائو ل کاسترو نے چے گوئرا کے مداحوں کے سامنے اِن کی قبر پر سفید گلاب رکھ کرایک بار پھران کے نظریات سے عقیدت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر فیڈل کاستروکے وہ الفاظ بھی یاد آئے جو انہوں نے 1997میں یہا ں اس انقلابی رہ نما کے باقیات کی رسمی تدفین کے وقت کہے تھے، ’’ہم یہاںچے اور اس کے ساتھیوں کو الوداع کہنے نہیں، خوش آمدید کہنے آئے ہیں!‘‘ یہاں وضاحت ضروری ہے کہ بولیویا میں 9 اکتوبر 1967 کو چے گوئرا اور ان کے 6ساتھیوں کے قتل کے بعد انہیں ایک نامعلوم مقام پر دفن کردیا گیا تھا۔ سال 1997میں ان کی باقیات کی دریافت کے بعد سانتا کلارا میں ان کی باقاعدہ آخری رسومات ادا کی گئیں۔
دور حاضر میں دنیا کے مختلف حصوں میں جاری تمام مسلح تحریکیں کسی نہ کسی سطح پر کسی ایک قوم، لسانی گروہ، نسل، مذہب یا جنس کی حمایت کے لئے وجود میں آئی ہیں۔ لیکن چے گوئرا کا فلسفہ ہر انسان کے لئے بلا امتیازایک سا ہے۔ اِن کی پاکستان آمد یقیناً تاریخی ہے کیوں کہ ِاس ملک میں ایسے رہنمائوں کی اشد ضرورت رہی ہے جو یہاں بسنے والے ہر شہری کے لئے مساوی حقوق پر نہ صرف یقین رکھتا ہو بلکہ ناموافق حالات میں ملک سے فرار ہونے کے بجائے، چے گوئرا کی طرح استحصالی سورمائوں کے خلاف لڑنے کی ہمت اور صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
کہا جاتا ہے کہ چے گوئرا ایک سے زیادہ بار پاکستان آئے تھے؛ کم از کم دو بار ! ایک تصویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پہلی بار 1959 میں شہرکراچی آئے۔ وہ اُس وقت کیوبن نیشنل بنک کے سربراہ تھے۔ کیا معلوم کہ وہ جنرل ایوب خان سے پاکستان پر امریکہ کے بڑھتے ہوئے دبائو پر بات کرنا چاہتے ہو ں اور نہ کرسکے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دارالحکومت اسلام آبا دکے منصوبے پر کام کی زیادتی کے سبب ایوب خان ان کی بات پر توجہ نہ دے سکے ہوں! دوسری بار چے گوئرا یقیناً 1965کے بعداپنی روپوشی کے دوران کراچی آئے ہوں گے؛ یعنی اِن کا دوسرا دورہ بلاشبہ خفیہ تھا۔
دسمبر انیس سو اٹھاون میں فل گینسیو بتیستا (FulGencio Batista) کا تختہ الٹنے کے بعد کیوبا میں اقتدار فیڈل کاسترو کے حوالے کرنا چے گوئرا کا بنیادی مشن تھا۔ سانتا کلارا میں خوفناک لڑائی کے بعد آخرکار سولہ فروری سن انیس سو انسٹھ کو فیڈل کاسترو نے اقتدار سنبھال لیا۔ یوں اس انقلابی کی آفاقی جدوجہد کا پہلا بڑامعرکہ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اَگلے مشن کی تیاری کے دوران ہی انہیں بینک کاسربراہ مقرر کردیا گیا ا ور یوں کیوبا میں ہر کرنسی نوٹ پراِن کے دستخط نظر آنے لگے۔ پھر انہیں وزارت مل گئی۔لیکن چے گوئرا جیسے متحرک انقلابی کے لئے عہدوں سے سمجھوتہ کرناممکن نہ تھا۔ لہٰذا وہ ایک دن خاموشی سے کیوبا اور انقلاب سے جڑی یادوں کو خیرباد کہہ کرکسی نامعلوم ہدف کی جانب روانہ ہوگئے۔
کراچی میں اُن کی خفیہ آمد غالباً اِسی مشن کا حصہ تھی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ 1959میں کیوبا میں انقلاب کی تکمیل اور پھر 1961میں میزائل تنازع کے بعد چے گوئرا اور فیڈل کاسترو دنیا بھر میں اچھی طرح پہچانے جانے لگے تھے۔ پھر روپوشی میں چلے جانے کے بعد چے گوئرا لاطینی حکومتوں کا سب سے بڑا ہدف بھی بنے رہے۔ اِن حقائق کے باوجود اِن کی پاکستان آمد کی کسی کو کانوں کان خبر ہوئی اور نہ ہی پاکستان میں اندرونی سطح پرکوئی شور شرابہ ہوا۔ اِن کی دو بار پاکستان آمد کے باوجود ایک جانب کمیونسٹ مخالف سیاست دانوں پر حیرت انگیز خاموشی چھائی رہی اور دوسری جانب بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشورو ں کے رد عمل پر بھی باقاعدہ شواہد دستیاب نہیں۔ شاید اُس وقت ملک میں کمیونسٹوں کو کافر قرار دینے والے ’’ پاکستانی ماہرین‘‘ زیادہ منظم نہیں تھے اوردوسری جانب بائیں بازو کے سیاست دان راولپنڈی سازش کیس کے بعد بظاہر نامعلوم مدت کے لئے پس منظر میں چلے گئے تھے۔ بہرحال چے گوئرا کے اِن دوروں سے متعلق دوستو ںاور دشمنوں کی مستقل بے نیازی ایک معمہ ہے۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ پاکستانی سیاست دان نے ایک حالیہ ملاقات میں آخرکار چے گوئرا کے خفیہ دورے کی تصدیق کر ہی دی، ’’اُن دنوں کراچی میں کیوبا کا قونصلر جنرل ایک مقبول سفارت کار سمجھا جاتا تھا۔ ایک دن اس نے انکشاف کیا کہ کامریڈ چے گویرا ایک روز پہلے شہر میں موجود تھے۔ اس نے بتایاکہ وہ کامریڈ کو کلفٹن کے ساحل پر بھی لے گیا جہاں کامریڈ نے اونٹ کی سواری کی، بچوں میں سکّے تقسیم کئے اور اُسی رات پیکنگ (بیجنگ) کے لئے روانہ ہوگئے۔‘‘
ان کی زندگی کا یہ آخری سفر بولیویا پر مکمل ہوا۔ چے گوئرا وہاں جاری مزاحمت کا حصہ بن گئے۔ وہ بے خبر تھے کہ ’’کونڈور‘‘ نامی خفیہ آپریشن کے تحت کیوبا میں اِن کی کامیاب مزاحمت سے بچ کر امریکا فرار ہوجانے والا افسر فیلکس روڈری گیز (Félix Rodríguez) انہیں تلاش کرنے پر معمور ہے۔ ان کو 8اکتوبر کو گرفتار کرکے اگلے ہی روز موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ آج نصف صدی گذرجانے کے باوجود اس سچائی کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ چے گوئراکا چہرہ آج بھی دنیا کا آشنا ترین چہرہ ہے۔ آج بھی پاکستان کے کسی بھی شہر میں کسی نہ کسی گفٹ شاپ یا چھابڑی پر دستیاب کسی چائے کے کپ، کسی فینسی مَگ یا ٹی شرٹ پر ان کی شہرہ ِ آفاق شبیہ پہچاننا کوئی مشکل کام نہیں۔
کمیونزم کے عالمی پھیلائو کا سب سے طاقتور حامی سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر گیا لیکن جبر اور عدم مساوات کے خلاف باغیانہ سوچ رکھنے والا ہر شخص دانستہ یا غیر دانستہ طور پر آج بھی چے گوئرا کی زندگی کو مشعل راہ سمجھتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ جہاں انسانی مساوات سے جڑے چے گوئرا کے خواب کو کسی مذہب، رنگ، نسل اور جنس تک محدود نہیں کیا جاسکتا وہیں اِن کے نظریات کی وسعت کو کسی مارکسسٹ، لیننسٹ یا مائوسٹ فلسفے تک بھی محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ یہی سچائی آج بھی اَن گنت دلوں میں اِن کے زندہ رہنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔

تازہ ترین