• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوم کا اجتماعی رد عمل…ماضی کی غلطیوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے

آج قوم منقسم سیاسی ڈھانچے میں بے سمت اور پریشان حال کھڑی ہے ۔ پاکستان کا آئین حملے کی زد میں ہے ، ادارے کمزور ہوچکے ہیں، دہشت گردی ایک بار پر سر اٹھا رہی ہے اور ہمارے ملک کی معیشت سر کے بل گرنے کے قریب ہے ۔ سوال یہ ہے کہ بہترین صلاحیتیں اور بے پناہ وسائل رکھنے کے باوجود ہم سے غلطی کہاں سرزد ہوئی ؟ہم گورننس اور قانون کی حکمرانی کی گراوٹ روکنے میں ناکام ہوگئے ۔ میں نے قومی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے والے کچھ عوامل کا ذکر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ قومی تعمیر کے مراحل میںپر خلوص کوشش اور قانون کی حکمرانی درکار ہوتی ہے ۔ قومی تعمیر کی بنیادی مستوی یہ ہے کہ کہ قانون کے احترام یا قانون کے خوف کے ذریعے ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے ۔ یہ دونوں عوامل کسی فرد کو ذمہ دار شہری بناتے ہیں۔
انفرادی ذمہ داری کا یہ عنصر اُسی وقت اجتماعی شکل اختیار کرتا ہے جب ہر کوئی قومی ذمہ داری کے جذبے سے سرشار ہو۔ چنانچہ شہریوں کو ذمہ داری اور حقوق کے درمیان ایک واضح حد ِ فاصل کھنچنی ہوتی ہے ۔ صاحبان ِعقل و دانش کا کہنا ہے ۔۔۔’’بہتر مستقبل کے تصور کو عملی شکل دینے کے لیے اپنائی جانے والی بہترین حکمت عملی رجائیت پسندی ہے ۔ جب تک آپ بہتر مستقبل پر یقین نہیں رکھتے ، آپ آگے بڑھ کر اسے بہتر بنانے کی ذمہ داری نہیں اٹھائیں گے ۔‘‘اور’’زندگی توازن کے نظام پر چلتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم سب آزادی ، امن اور باہمی ربط کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں، لیکن اس دوران یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے کہ ہم دوسروں کے آزادی، امن اور باہمی ربط کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق کو یقینی بنائیں۔ ‘‘
ہوسکتا ہے کہ کچھ افراد نظم وضبط اورپالیسیوں اور قوانین کے بے لچک نفاذ کو سخت گیر ی قرار دیں لیکن یہ عناصر ناگزیر ہیں۔ ان کے پاس جو بھی جواز ہو، چین، شمالی کوریا، قطر، سعودی عرب، ترکی اور ارجنٹینا قوانین کے بے لچک نفاذ اور سخت گیر پالیسیوں پر عمل درآمد کی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ ممالک اپنی پالیسیوں کی سختی سے پیروی کرتے ہیں،ا ور اگر ہم کامیابی کے سفر میں آگے بڑھنا چاہتے ہں تو ہمیں اس پہلو پر غور کرنا ہوگا۔ مذکورہ بالا ممالک کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں نے دنیا کو حیران کردیا ہے ، اور ان کی کامیابی کا فارمولہ سے کسی ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ ریاست مخالف پراپیگنڈے کا ہمیشہ کھوج لگایا جاتا ہے ، اور میں ملوث افراد کے ساتھ سختی سے نمٹا جاتا ہے ۔ مزید برآں، ایسے لغو اور منفی تصورات کو پھیلانا مجرمانہ فعل کے زمرے میں آتا ہے جو نوجوان ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کریں۔ اُن کا میڈیا کنٹرولڈ ہے ، اور اسی طرح انٹر نیٹ تک رسائی بھی ۔ کسی کو بھی بغاوت، تبدیلی کا اصلاح جیسے موضوعات زیر ِ بحث لانے کی اجازت نہیں ہے ۔
ہمارے جیسے ممالک کے ساتھ اصل مسلہ یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر نہ تو عملی سیاست میں حصہ لیتے ہیں، بلکہ ووٹ تک ڈالنے کی زحمت بھی نہیں کرتے ، لیکن جب بدعنوان رہنما اور سیاست دان ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آجاتے ہیں تو ہمیں سخت صدمہ ہوتا ہے ، اور ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ہم سے کیا حماقت سرزد ہوگئی ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم سب پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں ، اور ہم اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے صرف محبت اور چاہت کے نغموں سے اس بدقسمت قوم کا مقدر نہیں جاگے گا۔ عملی سیاست میں ہماری عدم شرکت کی وجہ سے ہم محض قربانی کے بکرے بن کر رہ گئے ہیں۔ اس میں اُن بے بصر رہنمائوں کی کوتاہ بینی کا عمل دخل ہے جو امریکہ کے ماتحت بن گئے ، اور امریکہ نے پہلے تو پاکستان کو طالبان کی مدد کرنے کے لیے ، اور بعد میں ان کے خاتمے کے لیے استعمال کیا ۔جب ہم ہزاروں بے گناہ شہریوں کی جانوں کی قربانی دے چکے تو ہمیں دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دے دیاگیا۔ مزید یہ کہ آزادی کے بعد سے اب تک پاکستان کو متعد د فوجی شب خون، غیر مستحکم جمہوری حکومتوں، مفلوج معیشت، کمزور عدلیہ اور سماجی جمود جیسے مسائل کا سامنا رہاہے ۔ ان کی وجہ کند ذہن معاشی ماہرین، غیر فعال سرکاری افسران، خودسر جاگیردار اور مذہبی رہنما،منافع خور صنعت کار، جو بنکوں سے غیر قانونی طور پر فنڈز حاصل کرکے اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہٰیں، اور آخر میں انتہا پسندوں کی دھشت گردی ہے ۔ اس دوران ناخواندہ شہری نے کوئی فعال کردار ادا نہیں کیا ۔ ہماری ناکامیوں کی فہرست کامیابیوںسے کہیں زیادہ طویل ہے ۔ جمہوری استحکام کے لیے قانون کی حکمرانی ، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق کی پاسداری، آزاد میڈیا، میرٹ اور معیار کا خیال رکھنے والے پروڈیوسرز اور سوالات اٹھانے والے عوام کا ہونا ضروری ہے ۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد سے قائم ہونے والی مختلف حکومتوں نے یہ بنیادی اصول کھل کرپامال کیے ہیں۔ جمہوریت کو پاکستان میں ہمیشہ ہی مشکلات کا سامنا رہا ۔ کئی ایک عناصر ریاست میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ بنتے رہے ۔ فوجی حکومتیں بھی ایک وجہ رہی ہیں۔ آمروں نے ایسے حالات پید اکیے جو اُنہیں ساز گار تھے، اور ایسی پالیسیاں نافذ کیں جن کے ذریعے اُن کا غیر قانونی تسلط مضبوط ہوا۔ مزید یہ کہ پاکستان کی سولین حکومتیں چل چلائو کے عالم میں رہیں۔ فوج، سول سروس کے اعلیٰ افسران اور انٹیلی جنس سروسز ریاست کے مستقل خدوخال وضع کرتی رہیں۔ایسی کوئی مثال نہیں کہ کسی سولین حکومت کو بامعانی خود مختاری ملی ہو۔ میں یہ بات شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ سول حکومت کی کمزوری یہ رہی ہے کہ اس نے اپنے مثالی رویے سے عام آدمی کو کوئی راستہ نہ دکھایا ۔ بدقسمتی سے عالمی طاقتوں کو بھی پاکستان کی فوجی حکومتیں بھاتی رہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ فوجی آمر جیسا کہ جنرل ایوب خان کو سرد جنگ کے دوران امریکی تعاون ملتا رہا۔ جنرل ضیا کو افغانستان میں سوویت مداخلت راس آگئی، اور آخر میں جنرل مشرف کی دھشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران سنی گئی ۔ کیا وہ اقدامات درست تھے؟ اُن کے خلاف اجتماعی ناراضی کا اظہار کیوں دیکھنے میں نہ آیا، اور اُن کو روکا کیوں نہ گیا ؟موجودہ دور میںہماری عالمی تنہائی اور مایوسی کی ایک اور وجہ ہماری ناقص خارجہ پالیسی ہے ۔ ہم دنیا میں قابل ِ اعتماد دوست بنانے میں ناکام رہے ، حالانکہ اس کے ہمارے پاس مواقع موجود تھے ۔ مصر اور خلیجی ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات موجود تھے ، اس کے باوجود پاکستان ان کے ساتھ رابط آگے بڑھانے میں ناکام ہوگیا ۔ پاکستان ان ممالک کے ساتھ دوطرفہ طور پر معاشی روابط قائم نہ کرسکا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ خلیجی ریاستوں کے علاوہ سعودی عرب اور مصر تک کے بھارت کے ساتھ معاشی اور فوجی معاہدے ہیں۔ ہم ان بردار اسلامی ممالک میں پاکستان اجناس کے گاہگ تلاش کرنے میں ناکام رہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر، ہم افغانستان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم نہ کرسکے، حالانکہ ہم نے بہت فیاضی سے تیس لاکھ افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دی ہے ۔ ہماری ناکام خارجہ پالیسی افغان حکومت اور عوام کو قائل نہ کرسکی کہ افغانستان کو سوویت پنجوں سے آزادی دلانے میں ہمار ا خون بھی شامل تھا، اور دوسرے یہ کہ ہم نے اپنی کمزور معیشت کے باوجود تیس لاکھ افغان بھائی بہنوں کو اپنے ہاں طویل عرصے سے پناہ دی ہے ۔ ایرانی حکومت بہت روایتی سوچ رکھتی ہے ۔ اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ ایران وہ پہلی ریاست تھی جس نے پاکستان کو بطور ایک آزادملک تسلیم کیا ۔ تاہم جنرل ضیا کے دور میں پروان چڑھنے والے انتہا پسند وں نے پاکستان اور ایران کے درمیان عدم اعتماد کے بیج بو دیے ۔ یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی مختلف حکومتیں اس عدم اعتماد کو رفع کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ دوسری طرف بھارت نے پیدا ہونے والے اس خلا سے فائدہ اٹھایا اور ایران کے قریب ہوگیا اور پاک ایران تعلقات میں نمودار ہونے والی خلیج کو مزید گہرا کیا ۔ ہم بھارت اور اسرائیل کے درمیان گہرے روابط کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہوئے ایران کے قریب ہوسکتے تھے ، لیکن ہماری کوتاہ بینی آڑھے آئی ۔ سری لنکا کے بھارت کے ساتھ تلخ تعلقات تھے کیونکہ بھارت سری لنکن حکومت کے باغیوں کو فنڈز فراہم کرتا رہا تھا ، لیکن ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بھی سری لنکا کے ساتھ فوجی اور معاشی تعاون کو آگے نہ بڑھاسکے ۔ ذرا تصور کریں اگر بھارت کی سرحد پر ہماری کوئی دوست ریاست ہوتی تووہ صورت ِحال ہمارے لیے کتنی سود مند ثابت ہوتی ۔ چند سال پہلے تک بنگلہ دیش کے بھی بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات تھے ۔ پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا کر 1971 ء کے زخم بھر سکتا تھا ،اور دنوں ممالک کے عوام قریب آسکتے تھے۔ ہم نے وہ موقع بھی ہاتھ سے گنوا دیا اور بنگلہ دیش ایک مرتبہ پھر بھارت کی گود میں جا بیٹھا۔ مزید یہ کہ ہم یورپ اور جاپان سے سرمایہ کاروں کو اپنے ہاں سرمایہ کاری کی دعوت دینے میں ناکام رہے۔ اگر ہم کوشش کرتے تو یہ ملک پاکستان کو بہت سازگار پاتے کیونکہ یہاں افرادی قوت بہت سستی ہے ۔ لیکن ہماری ناکام قومی پالیسیاں، غیر مستحکم سیاسی نظام اور ہمارے حکمرانوں کی ناقص قوت ِ فیصلہ نے تمام کام خراب کردیا ۔ ان غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں طالبان کا فتنہ کھڑا ہوگیا،پاکستان میں انتہا پسند پھیل گئی ، اور اب پاکستان دھشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے۔ دھشت گردوں کے ہاتھوں سب سے زیادہ ہلاکتیں اس نے برداشت کی ہیں ، لیکن ستم یہ ہے کہ اسے ہی دھشت گردی پر مورد ِالزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔ آج ہم دھشت گردوں کے ہاتھوںاذیت کا شکار ہیںکیونکہ ہم دھشت گردوں کواجتماعی ردعمل دینے میں ناکام رہے ۔ آج بھی قوم فرقہ ورانہ لکیروں پر منقسم کھڑی ہے ۔ آج ہمیں طالبان، اسامہ بن لادن اور القاعدہ کا سہولت کار قرار دیا جارہا ہے ۔ آج ہم ایک ایسا ملک ہیں جسے عالمی سازشوں نے گھیر رکھا ہے ۔ پاکستان مخالف قوتیں اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عالمی تنہائی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے اہم ادارے اور حکومت ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ اور قوم کے لیے اندرونی اور بیرونی طو رپریہ ایک خطرناک بات ہے ۔ جب ہم مزید پیچیدہ صورت ِحال کی طرف بڑھ رہے ہیں،تو ہمیں اپنے نوجوانوں کو اپنے ملک کے بہتر مستقبل کی جھلک دکھانی چاہیے ۔ ہمارے سامنے کچھ سوالات بہت تشویش ناک ہیں: کیا حکومت دھشت گردی کے خلاف اجتماعی بیانیہ قائم کرنے جارہی ہے ؟کیا میڈیا ایک بار پھر اپنا حقیقی کردار ادا کرتے ہوئے 1965 والا اتحاد قائم کرسکتا ہے ؟قومی اتحاد ایک بنیادی عامل ہے جو اجتماعی ردعمل کو سامنے لاسکتا ہے ۔ ہم نے کبھی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ ہم پاکستان کو بدستور ایڈہاک بنیادوں پر چلا رہے ہیں۔ یہ نظام اپنی اہمیت کھو چکا ہے ، اس کی عملداری تحلیل ہوچکی ہے ، اور کچھ افراد اس نظام پر غالب آچکے ہیں۔ بدعنوانی اور اقرباپروری نے اس نظام کی چولیں ہلا دی ہیں۔ قانون کے احترام ،یا قانون اور احتساب کے خوف کے فقدان کی وجہ سے یہ نظام چند ایک ہاتھوں میں یرغمال بن چکا ہے ۔ مختصر یہ کہ آج ہم اپنی ہی ناکامیوں اور غلطیوں کے گھائو سہہ رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے بطور قوم ذمہ داریوں سے اجتناب برتنا اور الزامات کے لیے کسی اور کی گردن تلاش کرنا سیکھ لیا ہے ۔ حکومت اور نجی شعبہ ایک دوسرے کو مورد ِالزام ٹھہراتا رہتا ہے ۔ قانون کا احترام ہم پر گراں گزرتاہے ، نہ ہی ہمارے دل میں اپنے ملک کے قانون کا کوئی احترام موجود ہے ۔ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے پر ہم رسمی معذرت تک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ اس رجحان نے قومی ہم آہنگی اور ذمہ داری کے بنیادی سالمے کو تباہ کردیا ہے ۔ آج ہم کسی طور ایسی قوم نہیں جو درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے اجتماعی ذمہ داری محسوس کرتی ہو۔ اجتماعی ذمہ داری کا احساس وہ بنیادی عامل ہے جو اہم اور ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی میںاہم کردار ادا کرتا ہے ۔ ہمیں اس ضمن میں ناکامی کا سامنا ہے ۔ اور تو اور، ہم درست رہنماوں کا انتخاب تک کرنے کے قابل نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ ہم نے آخری مرتبہ اجتماعی ذمہ داری کے احساس کا مظاہرہ 1965 کی جنگ کے دوران دیکھا جب ہم نے اتفاق اور غیر متزلزل قوت ِ ارادی سے بھارت کو شکست سے دوچار کیا تھا ۔ اس جذبے کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے سب سے پہلے تو پارلیمان کو اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔ اجتماعی ذمہ داری کا کلچر عام کرنے کے لیے پارلیمان کو ہراول دستے کا کردار ادا کرنا ہے ۔ بدقسمتی سے یہ تاحال ایسا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ اس کی بجائے اس نے تقسیم اور ٹکرائو کے رجحانات کو فروغ دیا ہے ۔ یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ جن پر عوام نے اعتماد کا اظہار کیا تھا ، اُنھوں نے نہ صرف اعتماد کو ٹھیس پہنچائی بلکہ قومی تعمیرکے بیانیے کے خلاف رجحانات کو عام کیا ۔ اب شاید وقت آگیاہے جب عام آدمی اپنے حقوق کے بارے میں جارحانہ لہجے میں سوال کرے ، اور وہ حقیقی قیادت کا سوچ سمجھ کر انتخاب کرے ۔ ایسی قیادت جو قوم اور اس کے تمام عناصر کو ایک صفحے پر لے آئے ۔ بطور قوم ہم موجودہ صورت ِحال پر قانع رہنے کی عادت اپنا تے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ترقی، خوشحالی، قومی ہم آہنگی اور ربط کے لیے دیگر امکانات کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ ہمیں اس فکری جمود کو توڑناہے ۔ آئیے وعدہ کریں کہ ہم اپنے ماضی کو دیکھتے ہوئے اپنے بہتر مستقبل کے امکانات کا کھوج لگائیں گے ۔ ہم اپنی بات یہ کہتے ہوئے ختم کرتا ہوں کہ ہوسکتا ہے کہ اگر ہم نے اجتماعی ذمہ داری کا تعین کرلیا ہوتا اور ہم قانون کی حکمرانی کو یقینی بنالیتے تو ہم آج مشکل میں گرفتار نہ ہوتے ۔ ہم نااہل اور بدعنوان حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ۔ میں ہر شہری ، خاص طور پر قوم کے نوجوانوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور اجتماعی ذمہ داری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ایماندار، باصلاحیت اور اہل قیادت کا انتخاب کریں، تاکہ ہم اس بحران سے نکل سکیں۔ اجتماعی قومی ذمہ داری کا احساس ہی آگے بڑھنے کی واحد امید اور درست راستہ ہے ۔

تازہ ترین