• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سارے ’’مسائل‘‘ نوازشریف کے وزیراعظم ہونے کی وجہ سے تھے جو ان کے جاتے ہی ’’حل‘‘ ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے تمام ’’مسائل‘‘ نے اس وقت جنم لیا جب نوازشریف جون 2013ء میں عام انتخابات جیتنے کے بعد یعنی عوام کی مرضی سے وزیراعظم بنے۔اسی دن ہی دانشمندوں نے اسکیمیں بنا لیں کہ کس طرح ان کو غیرمستحکم کرنا ہے تاکہ پاکستان کی ’’ترقی‘‘ آسمانوں کو چھونے لگے۔ یہ سازش اس وقت پک کر سامنے آئی جب ایک سال کے بعد ہی لاہور سے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا اور اس کے بعد ڈی چوک میں کئی ماہ پر محیط دھرنا دے دیا۔ اس احتجاج کی وجہ سے پاکستان نے ایسی مثالی ترقی کی جس کی نظیر ہماری تاریخ میں نہیں ملتی یہاں تک کہ چینی صدر کے علاوہ دوسرے کئی ممالک کے رہنمائوں نے پاکستان کے دورے منسوخ کر دئیے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر دستخط ہونے کا معاملہ بھی پس پشت چلا گیا کیونکہ ملک کی ترقی اس التوا کی وجہ سے ہی ہونی تھی۔ وزیراعظم اور وفاقی حکومت کو بری طرح اپاہج کر دیا گیا، پارلیمان کی بے توقیری کی گئی، پولیس پر حملے کئے گئے ،قومی تنصیبات بشمول پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز کو تہس نہس کیا گیا ،آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں اور گالیوں اور دشنام طرازیوں کا بازار گرم کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ کرنا بہت ضروری تھا کیونکہ اس کی وجہ سے پاکستان کا نام دنیا میں بہت روشن کرنا تھا لہذا یہ منصوبہ مکمل طور پر ’’کامیابی‘‘ سے ہمکنار ہوا اور اس پر عمل کرنے والوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا جہان سے مبارکبادیں وصول کیں۔ لیکن ’’مسئلہ‘‘ ( نوازشریف ) پھر بھی مکمل طور پر حل نہ ہوا اگرچہ اس میں کامیابی بڑی حد تک اس نقطہ نگاہ سے حاصل کر لی گئی کہ وزیراعظم کو بہت کمزور کر دیا گیا ،انہیں بتا دیا گیا کہ ان کے ساتھ کیا کچھ کیا جاسکتا ہے اور یہ تو صرف ٹریلر تھا فلم ابھی باقی ہے۔ اصل مسئلہ اس وقت حل ہوا جب نوازشریف کو 28 جولائی کو بطور وزیراعظم برطرف کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں پھیل گئیں اور بھنگڑے ڈالے گئے کہ پاکستان نے وہ لینڈ مارک حاصل کر لیا ہے جس کا خواب یہ 70 سال سے دیکھ رہا تھا۔ سازشی عناصر چیف ایگزیکٹو کو مکھن سے بال نکالنے کی طرح اپنے عہدے سے علیحدہ کرنے کی وجہ سے محسوس کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے سب سے پاپولر لیڈر کو کتنی آسانی سے فارغ کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ملک کے تمام مسائل کی جڑ تھا لہذا اب ان کیلئے چھوٹے موٹے سیاستدان یا وہ لیڈر جن کی وہ پشت پناہی کرتے ہیں کو ڈیل کرنا تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اب ملک میں کرپشن کا نام ونشان نہیں رہا اور پانامہ پیپرز میں آنے والے 4 سو سے زائد پاکستانیوں کا کڑا احتساب ہوگیا ہے۔ اوپر سے نیچے تک رشوت لینا تو دور کی بات ہے اب تو یہ لفظ پاکستانی لغت سے ہی غائب ہوگیا ہے۔ تمام کرپٹ افراد جیلوں کی ہوائیں کھا رہے ہیں ۔ اس وجہ سے ہمارے فیصلہ ساز خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ عام پاکستانی جو نوازشریف کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ان کی کرپشن کی وجہ سے بہت پریشان تھے اب تو وہ جہاں بھی اپنے کاموں کیلئے جاتے ہیں ان کا استقبال کیا جاتا ہے اور رشوت کی تو کوئی بات کرتا ہی نہیں۔ نوازشریف کو ہٹانے کے بعد اتنا زیادہ سیاسی استحکام ہو گیا ہے کہ بے شمار طوطے یہ کہہ رہے ہیں کہ اب تو تین سال کیلئے ایک ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنا دی جائے تاکہ اس سیاسی ہم آہنگی کو مزید مضبوط کیا جائے ورنہ ملک کی خیر نہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ جو معرکہ مارا گیا ہے اس کے ثمرات کو ضائع کیا جاسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر سیاسی جماعت چاہے وہ نوازشریف کیساتھ ہے یا انکے مخالف ہے بار بار یہی کہہ رہی ہے کہ سیاست میں بہت انتشار آگیا ہے جس کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب ہماری معیشت اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ ورلڈ بینک اور دنیا کے تمام بڑے بڑے فنانشل ادارے اور اخبارات یہ کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف کو ہٹانے کی وجہ سے اکانومی کو بہت نقصان پہنچا ہے اور ان کے ہوتے ہوئے یہ بہت مستحکم ہو رہی تھی۔ اب ہماری اسٹاک مارکیٹ اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ اس میں عام انوسٹرز کے اربوں کھربوں دریا برد ہوگئے ہیں جس میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ اس مسئلے (نوازشریف ) کی موجودگی میں اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی جس کو کوئی اسٹاپ نہیں لگ رہا تھا۔ 28جولائی کے بعد ملک میں ’’استحکام‘‘ کی وجہ سے چین بھی بہت خوش ہے اور اس کے اسلام آباد ایمبیسی میں تعینات ڈپٹی چیف آف مشن نے بھی کھل کر کہا ہے کہ وزیراعظم کے ہٹنے کی وجہ سے سی پیک کے منصوبوں کی رفتار پر کافی برا اثر پڑا ہے اور دو ماہ تک پلاننگ کمیشن کا کوئی وزیر ہی نہیں تھا جن کے ساتھ وہ کوآرڈی نیشن کرسکتے۔
منصوبہ سازوں اور ان کے تھنک ٹینکس کی مدلل رائے کے مطابق ’’مدر آف آل پرابلمز اینڈ ٹربلز‘‘ کے ہٹانے کے بعد پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں مگر زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ کوئی پسند کرے نہ کرے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 28 جولائی کے بعد نوازشریف کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے اور آج بھی وہ پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں۔ ساڑھے چار سال سے جاری سیاسی ہا ہو جس کا مقصد انہیں نقصان پہنچانا تھا نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ باوجود اس کے کہ انتھک کوشش کی گئی کہ کسی نہ کسی طرح بیگم کلثوم نوازکو 18 ستمبر کو ہونے والے این اے 120 لاہور کے ضمنی انتخابات میں شکست سے دو چار کیا جائے بری طرح منہ کی کھانی پڑی۔ سازشیں جاری ہیں کہ کس طرح نون لیگ کو تقسیم کرکے نوازشریف کی گرفت کو کمزور کیا جائے مگر ابھی تک ناکامی ہی ہوئی ہے۔ نامعلوم ٹیلی فون نمبروں سے نون لیگ کے کچھ ایم این ایز کو کہا گیا کہ وہ قومی اسمبلی میں اس ترمیم کے حق میں ووٹ نہ دیں جس کے مطابق نااہل شخص سیاسی جماعت کا عہدہ لے سکے تاہم وہ نہ مانے اور وہ الٹا ان کالز کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے نوٹس میں لائے جنہوں نے اس پر مناسب ایکشن لیا۔ اس ترمیم کے منظور ہونے کے بعد نوازشریف دوبارہ فوراً اپنی جماعت کے صدر بن گئے اور یہ ان لوگوں کے سینے پر مونگ دلنے سے کم نہ تھا جو کئی سالوں سے اس ’’مسئلے‘‘ سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ یہ کیا کوئی کم کامیابی ہے کہ نوازشریف کے نااہل ہونے کے تین دن کے اندر ہی ان کا نامزد لیڈر وزیراعظم بن گیا۔ نون لیگ میں انتشار پیدا کرنے کیلئے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)کا ایک خط مینوفیکچر کیا گیا جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ وزیراعظم ہوتے ہوئے نوازشریف نے اس خفیہ ایجنسی کو اپنی جماعت کے ان ایم این ایز کے بارے میں رپورٹ تیار کرنے کا کہا تھا جن کے دہشتگرد تنظیموں سے رابطے ہیں اور آئی بی نے ایسے 37 ایم این ایز کی لسٹ وزیراعظم کو دی۔ یہ جعل سازی کی انتہا تھی اور اب بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ اس جعلی لیٹر کو براڈ کاسٹ کرنے والے اب بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ اصلی ہے۔ مزید سازش یہ کی گئی کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اپنا یس مین لایا جائے مگر یہ بھی ناکام ہوئی۔ شاہد خاقان عباسی کا بار بار یہ کہنا کہ ان کے وزیراعظم نوازشریف ہی ہیں سازشی عناصر کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ عباسی صاحب کی نوازشریف سے مکمل وفاداری اور کمٹمنٹ کی وجہ سے ہی طوطے اب ان کو نشانہ بنا رہے ہیں اور جھوٹ اور بہتان کا بازار جو جون 2013ء سے لگا رکھا ہے زور شور سے گرم کیا گیا ہے۔ جعلسازیاں کی جارہی ہیں تاکہ عباسی صاحب جیسے نیک نام شخص کو بدنام کیا جائے۔ مگر وزیراعظم ہیں کہ نوازشریف سے بے وفائی کا سوچ بھی نہیں سکتے اور یہی سازشیوں کیلئے بہت بڑی سزا ہے۔سازش کا اگلا ایکٹ نوازشریف اور ان کے خاندان کو احتساب کے ڈھکوسلے میں سزا دلوانا ہے تاہم پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی لیڈر اس میکنزم سے ختم نہیں کیے جاسکتے وہ ختم صرف اس وقت ہوتے ہیں جب عوام انہیں مسترد کرتے ہیں۔

تازہ ترین