• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری آنکھوں نے اپنی آزادی کی ستر سالہ تاریخ میں کیا کچھ نہیں دیکھا؟ ایمان افروز مناظر بھی اور اداروں اور قدروں کی گرتی ہوئی دیواریں بھی۔ پاکستان انتہائی غیر معمولی اور غیر یقینی حالات میں دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا۔ لُٹے پٹے مہاجرین کے قافلے آگ اور خون کے دریا عبور کرکے بھارت سے آرہے تھے۔ نئے ملک کا انتظامی ڈھانچہ بری طرح درہم برہم تھا۔ اسلام کے اعلیٰ جذبوں سے سرشار مقامی آبادی نے آنے والوں کو سینے سے لگایا اور ان کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔ ان بے مثال واقعات کے پہلو میں دلوں کو دہلا دینے والے حوادث بھی رونما ہوئے۔ آئین سازی میں غیر معمولی تاخیر کے اصل اسباب کا حل تلاش کرنے کے بجائے نادان سیاستدانوں نے سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ہاتھ مضبوط کئے جو مشرقی پاکستان کو اس کی آبادی کے لحاظ سے قومی اسمبلی میں نمائندگی دینے کے لیے کسی طور آمادہ نہیں تھی۔ طرفہ تماشہ یہ کہ دستور ساز اسمبلی جب دستور منظور کر رہی تھی، تو عین اسی وقت فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد ایوب خاں لندن کے ایک ہوٹل میں پاکستان کا دستوری مسودہ ضبطِ تحریر میں لا رہے تھے جس میں پاکستان کے دونوں بازوئوں کو مساوی نمائندگی کا اصول کار فرما تھا۔ اسی اثناء میں کراچی ایوننگ ٹائمز کے ایڈیٹر زیڈ اے سلہری، جناب حسین شہید سہروردی سے ملنے بیروت گئے اور ان کا یہ بیان لے کر آئے کہ دستور ساز اسمبلی عوام کا اعتماد کھو بیٹھی ہے، اس لیے اسے تحلیل کرکے نئے انتخابات کرائے جائیں۔ اس بیان اور بعض دوسرے عوامل کی بنیاد پر گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی 24؍اکتوبر 1954ء کی شام توڑ ڈالی اور ہنگامی صورت حال نافذ کر دی۔ دہشت کا یہ عالم تھا کہ دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خاں برقع پہن کر رکشے میں سندھ چیف کورٹ پہنچے اور آئینی درخواست دائر کرنے میں کامیاب رہے۔
فاضل عدالت نے ان کی رِٹ پٹیشن سماعت کے لیے منظور کر لی اور کئی روز دلائل سننے کے بعد گورنر جنرل کے حکم کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے دستور ساز اسمبلی بحال کر دی۔ فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر تھے، اس نے اپیل میں سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ اس بنا پر کالعدم قرار دے دیا کہ وہ آئینی ترمیم جس میں اعلیٰ عدالتوں کو آئینی درخواستیں سننے کا اختیار دیا گیا تھا، اس پر گورنر جنرل کے دستخط ثبت نہیں تھے۔ فاضل چیف جسٹس کا یہ استدلال سراسر بےبنیاد تھا، کیونکہ قائداعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے قانون یا آئینی ترمیم پر دستخط نہیں کئے تھے اور فاضل اسپیکر کے دستخطوں کو قطعی قرار دیا تھا۔ فیڈرل کورٹ کے اس فیصلے سے بہت بڑا قانونی خلا پیدا ہوا اور اسے پُر کرنے کے لیے نظریۂ ضرورت ایجاد کرنا پڑا۔ نئی دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی اور اس نے وہی دستور منظور کیا جس کا مسودہ جنرل ایوب خاں نے تیار کیا تھا۔ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی کی اس ملی بھگت کے ہماری قومی زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے جن کا ظہور سانحۂ مشرقی پاکستان میں ہوا اور آج بھی جاری ہے۔
پاکستان گزشتہ چار پانچ برسوں سے سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی تعلقات کے اعتبار سے استحکام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ غیر جانب دار مالیاتی ادارے پیشن گوئی کر رہے تھے کہ پاکستان آئندہ دس بارہ برسوں میں دنیا کی بیسویں بڑی معیشت بن جائے گا اور چین پاک اقتصادی راہداری کی تعمیر سے علاقائی اور بین الاقوامی تجارت کو بہت فروغ حاصل ہوگا۔ 2013ء میں پرامن انتقالِ اقتدار سے جمہوری عمل کو غیر معمولی تقویت حاصل ہوئی۔ ان کامیابیوں کا سفر جاری رکھنے کے لیے حکومت کا استحکام ضروری تھا، مگر ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی بدخواہ طاقتیں اس کی شکست و ریخت میں شب و روز مصروف رہیں اور 1954ء میں جن طاقتوں کے درمیان ملی بھگت ہوئی تھی، وہ آج ایک نئی صورت میں ’’جلوہ گر‘‘ہے۔ پاناما کیس جس میں نوازشریف کا نام شامل ہی نہیں تھا، وہ ٹیکنیکل گرائونڈ پر نااہل قرار دیئے گئے جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے معاشی ابتری اور سیاسی بے یقینی کے خوفناک آثار پیدا ہورہے ہیں۔ امریکہ اور بھارت پاکستان پر حملہ آور ہونے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور ہمارا داخلی انتشار ہیبت ناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ جناب نوازشریف جو سیاسی طور پر بڑے طاقتور دکھائی دیتے تھے، ان کا یہ حشر کیوں ہوا۔
میں نے اس پہلو پر بہت غور کیا اور مجھے محسوس ہوا ہے کہ داخلی اور خارجی اسباب کے علاوہ کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جن پر نوازشریف صاحب کو تنہائی میں ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے اپنی نادانی یا نادان مشیروں کے کہنے پر اس بار ایک ایسی حکمتِ عملی اپنائی جس کے باعث وہ اپنی طاقت کے حقیقی سرچشموں سے محروم ہوتے گئے۔ انہیں ان طبقوں کی حمایت کئی عشرے حاصل رہی جو مذہبی رجحانات رکھتے اور نظریۂ پاکستان سے وابستہ چلے آرہے ہیں۔ شریف خاندان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ایک مذہبی گھرانا ہے جو صوم وصلوٰۃ اور مشرقی روایات کا پابند ہے۔ شریف برادران کے متعلق یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں اور انہیں اس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کا ہنر آتا ہے، مگر کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے ان کے نامۂ اعمال کا آسیب ان کا تعاقب کررہا ہے۔ جناب نوازشریف کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ ایک عالمی مدبر کا امیج تراشنے کے لیے انہیں مذہب سے قدرے فاصلے پر نظر آنا اور یہ تاثر دینا ہوگا کہ وہ بہت لبرل اور اقلیتوں کے بڑے محافظ ہیں اور خطے میں امن قائم کرنے کے لیے بھارت سے ہر قیمت پر دوستی کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنی ذہنی تبدیلی کا سب سے پہلا اظہار بھارت نواز تنظیم کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس میں غیر مسلم بھی شریک تھے۔ وہ ان سے مخاطب ہو کر کہہ رہے تھے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کچھ فرق نہیں۔
ہماری ثقافت ایک جیسی ہے اور ہمارے کھانے پینے کے طور اطوار بھی تقریباً یکساں ہیں۔ آپ جسے بھگوان کہتے ہیں، ہم اسے خدا کے نام سے پکارتے ہیں۔ وہ کروڑوں پاکستانی جنہوں نے قائداعظم کی تقریر پڑھی ہے جو انہوں نے 23مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور کی منظوری سے پہلے کی تھی، وہ ہکا بکا رہ گئے۔ قائداعظم نے اس تقریر میں فرمایا تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں میں تاریخ، عقائد اور معاشرتی رہن سہن میں بہت اختلاف ہے۔ ایک کے ہیرو دوسروں کے بدترین دشمن ہیں۔ نواز شریف کے وارثان کو دوسرا گہرا زخم اس وقت لگا جب علامہ اقبال کے یومِ پیدائش کی چھٹی ختم کر دی گئی۔ انتخابی اصلاحات کے بل میں ختمِ نبوت پر ایمان رکھنے والے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کرنے سے مسجدوں اور محلوں میں مسلم لیگ نون کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں اور باتیں ہو رہی ہیں ۔مزید برآں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کا ہولی کھیلنا اور مسلمانوں کے قاتل مودی کے ساتھ ذاتی مراسم بڑھانا بھی حساس طبیعتوں پر بہت شاک گزرا تھا۔ مذہبی تنظیمیں شمشیر بکف نظر آتی ہیں۔ بعض درویش کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف اللہ کی پکڑ میں آگئے ہیں اور انہیں پورے خشوع وخضوع سے خدائے رحمٰن و رحیم کی طرف رجوع کرنا اور اسی سے مدد طلب کرنی چاہیئے۔ ان کا اصل سرمایہ نام نہاد لبرل حلقے نہیں، بلکہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست کا درجہ دیتے اور اسے اقبال اور قائداعظم کی میراث تصور کرتے ہیں۔ اس میراث کی حفاظت ہی سے بگاڑ پر قابو پایا اور تباہی کا راستہ روکا جاسکے گا۔ ہمیں دل کھلے اور نیتیں صاف رکھنا ہوں گی۔ غصے پر قابو پانا اور درگزر سے کام لینے کی روش اپنانا ہو گی۔ مذہب کے بارے میں بڑی احتیاط سے کام لینا اور کوتاہیوں کا کفارہ ادا کرنا ہوگا، تب ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے حق دار ٹھہریں گے اور ہمارے بگڑے ہوئے معاملات بھی درست ہوتے جائیں گے۔

تازہ ترین