• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شگفتہ ملک اے این پی کی صوبائی رہنما ہیں، وہ خیبر پختونخوا اسمبلی کی رکن بھی رہی ہیں، وہ ہمہ وقت اپنی پارٹی کے لئے سرگرم رہتی ہیں، ایک روز انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کا فلسفۂ سیاست بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری سیاست خدمت کی سیاست ہے، ہمارے راہبر نے ہمیں یہی درس دیا ہے کہ ہر حال میں لوگوں کی خدمت کی جائے‘‘ ۔شگفتہ ملک کی باتیں درست ہوں گی، اے این پی کے زیادہ لوگ خدمت ہی کو سیاست سمجھتے ہوں گے مگر جب یہ سیاست مخصوص قبیلے کے پاس جاتی ہے تو پھر سیاست کے ساتھ دولت کا فلسفہ بھی شامل ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے اکثر سیاستدان یہی کہتے ہیں کہ وہ سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، پتہ نہیں یہ کونسی عبادت ہے جو ان سیاستدانوں کو دولت کے انبوہ کثیر پر بٹھا دیتی ہے، ہر طرف دولت کی ریل پیل، بیرونی دنیا میں مہنگے محلات گواہی دے رہے ہیں کہ پاکستانی سیاستدانوں نے خوب لوٹ مار کی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب ایک جیسے ہیں، اس ملک میں ملک معراج خالد بھی تھے، ابھی بھی ملک میں کئی سیاستدان ایسے ہیں جن کا نام ایسے لوگوں میں لیا جا سکتا ہے جو لوٹ مار سے دور رہے، اس میں تمام پارٹیوں کے لوگ ہیں اے این پی کے میاں افتخار، پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی اور چوہدری شہباز حسین، پیپلزپارٹی کی شیری رحمٰن، مسلم لیگ کے ریاض پیرزادہ اور چوہدری جعفر اقبال، اسی طرح سید فخر امام۔ کچھ اور لوگ بھی ہیں مگر اس میں شک نہیں کہ زیادہ تر سیاستدان داغدار ہیں۔ چند ناموں کو چھوڑ کےباقی سب سیاستدان اس صف میں کھڑے ہیں جہاں ناجائز دولت کے ڈھیر لگانا فرضِ اولین سمجھا جاتا ہے۔
آصف علی زرداری کا تازہ فرمان یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور اے این پی مک مکا کی سیاست کر رہے ہیں۔ پتہ نہیں انہوں نے یہ مک مکا کہاں سے ڈھونڈ لیا ہے حالانکہ ان کا اپنا، ن لیگ کے ساتھ مک مکا مشہور ہے۔ پیپلز پارٹی کے اہم رہنما ندیم افضل چن سے جب آپ خورشید شاہ کی فرینڈلی اپوزیشن کا پوچھیں تو وہ کہتے ہیں ’’نو کمنٹس‘‘۔
پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم رہنمائوں کی بیرونی دولت نے ملکی معیشت کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اب ملکی معیشت کی کشتی دریا کی بے رحم لہروں کے سامنے ہچکولے کھا رہی ہے۔ گزشتہ تیس پینتیس سالوں میں ملکی معیشت کے ساتھ کھیلا گیا مگر پچھلے ساڑھے چاربرسوں سے کھلواڑ ہو رہا ہے۔ جس دن جنرل مشرف رخصت ہوئے تھے تو پاکستان پر 34ارب ڈالرز کا قرضہ تھا، اس وقت ڈالر ساٹھ روپے کا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی قرضے لئے مگر اسحاق ڈار نے تو قرضوں کو پَر لگا دیئے۔ آج ملک پر 83ارب ڈالرز کا قرضہ ہے اور ڈالر ایک سو سات آٹھ روپے کا ہے، پینتیس ارب ڈالرز کا قرضہ لے کر پتہ نہیں کس کا کھیل کھیلا گیا، نجانے کیوں یہ کھلواڑ کیاگیا، ا ملکی اثاثے گروی رکھوائےگئے۔ ایک طرف اداروں کی تباہی تو دوسری طرف اداروں پر بڑھتے ہوئے قرضے، تیسری جانب ملکی اثاثوں کو گروی رکھنا اور چوتھی جانب بھاری شرحِ سود پر عالمی مالیاتی اداروں سے بڑے قرضوں کا حصول، یہ سب کھلواڑ ہے، اس سارے کھیل میں ہندسوں اور لفظوں کے گورکھ دھندے میں قوم کو دھوکہ دیا جاتا رہا۔ پاکستان کے معاشی امور کے ماہرین پچھلے چار برسوں سے پیٹ رہے ہیں کہ ملکی معیشت کو تباہ کیا جا رہا ہے وہ جو کھلواڑ کر رہا ہے وہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس مشکل موڑ پر ملک کا آئندہ بجٹ بنانا کاہش جاں بنا ہوا ہے کیونکہ ہمیں اگلا بجٹ بنانے کے لئے کم از کم چالیس ارب ڈالرز چاہئیں مگر وہ کہاں سے آئیں۔ ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے، درآمدات بڑھنے پر فخر محسوس کیا جا رہا ہے برآمدات کے کم ہونے پر کوئی ندامت نہیں۔ برے معاشی حالات کا اصل ’’چہرہ‘‘ بڑا بھیانک ہے۔ ہمیں قرضوں کی ادائیگی کی اگلی قسط کے سلسلے میں کم از کم ستائیس ارب ڈالرز کی ضرورت ہے، ہم اپنے وسائل سے بارہ ارب ڈالرز تو پیدا کر لیں گے مگر پندرہ ارب ڈالرز کہاں سے پیدا کریں گے، ہم اس کھلواڑ سے دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں مگر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ روس کے پاس ایٹم بم ہی نہیں بہت سا اسلحہ تھا مگر کمزور معیشت روس کو لے ڈوبی۔ جدید جنگی مہارت یہ بھی ہے کہ اپنے دشمن ملک کی معیشت کو کمزور کر دیا جائے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ اپنے ملک کی معیشت کو کمزور کر کے کس کا کھیل کھیلا گیا ہے، یہ کھلواڑ کیوں کیاگیا؟
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ کھلواڑ اس لئے کیا کہ آئندہ پاکستان پر حکمرانی کرنے والے کو ہر طرف مشکلات ہی مشکلات نظر آئیں۔ دشمن ملک سے درآمدات کے دروازے کھول کر ملک کو نقصان پہنچایا اور دشمن کو طاقت کے ٹیکے مہیا کئےگئے۔ ملکی معیشت کے سائیکل کی ٹیوب کو جگہ جگہ سے پنکچر کر دیاگیا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اس کھلواڑ میں ملکی معیشت کو پنکچر لگانے والی سائیکلوں کی ایک دکان سمجھا گیا، آج ملکی معیشت سنگین خطرات سے دوچار ہے، ملکی معیشت سوال کر رہی ہے کہ اس کے ساتھ یہ کھلواڑ کیوں کیا گیا؟ سرور ارمان یاد آگئے کہ ؎
غلام اس سے زیادہ غلام کیا ہو گا
کہ اس کے شانوں پہ جب اپنا سر دکھائی نہ دے

تازہ ترین