• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Todays Print

اسلام آباد (انصار عباسی) قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون کو بہتر بنانے کیلئے قائم کی جانے والی پارلیمانی کمیٹی بری طرح منقسم ہو چکی ہے کیونکہ سرکردہ سیاسی جماعتیں، پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور پی ٹی آئی نے مختلف موقف اختیار کر رکھا ہے جس سے نیا احتساب نظام لانے کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ منگل کو کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا، کمیٹی ذرائع اس صورتحال سے مایوس نظر آتے ہیں، انہوں نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ نواز لیگ اور تحریک انصاف ججوں اور جرنیلوں تک نیب قانون کا دائرہ وسیع کرنے کے معاملے پر اس ایشو کو طول دے رہی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ صوبائی سطح پر اپنا اپنا ایک آزاد احتساب نظام لایا جائے جیسا کہ سندھ حکومت نے قائم کر رکھا ہے۔اِن ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے کمیٹی کو بتایا ہے کہ وہ احتساب نظام کے حوالے سے اپنا علیحدہ بل لے کر آ رہی ہے۔

کمیٹی کے ایک ذریعے نے مایوس کن انداز سے کہا کہ کوئی بھی سنجیدہ نظر نہیں آ رہا کہ ملک میں احتساب کا ایک زبردست نظام قائم کیا جا سکے، مجھے نہیں لگتا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اس ایشو پر کوئی اتفاق رائے پیدا ہوگا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے 9 سال کے دوران احتساب کا نیا میکنزم لانا دونوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ پارلیمانی کمیٹی کیلئے بلاتفریق احتساب، جس میں جرنیل اور ججز بھی شامل ہوں، کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنا سب سے بڑا چیلنج رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل، موجودہ کمیٹی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ارکان پارلیمنٹ کی طرح، تمام سول اور سرکاری ملازمین بشمول بیوروکریٹس، ججز اور جرنیلوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ ہر سال اپنی جائیداد کے گوشوارے عوام کے سامنے رکھیں۔ لیکن اب اس بات پر بھی کمیٹی کے کئی ارکان ایک دوسرے سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں۔

ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ اب پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان اصرار کر رہے ہیں کہ نئے قانون کا دائرہ ججوں اور جرنیلوں تک بھی پھیلانا چاہئے لیکن دیگر ارکان کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ نیب کے اس کالے قانون، کہ بیورو جنہیں گرفتار کرتا ہے انہیں 90 روز تک ضمانت نہیں مل سکتی، کے خلاف سب کا اتفاق ہے کہ نئے قانون میں ملزم کو ضمانت ملنا چاہئے۔ اس بات پر بھی اتفاق پایا جاتا ہے کہ رضاکارانہ طور پر رقم کی واپسی کی موجودہ شق ختم کر دی جائے گی جبکہ پلی بارگین کی اجازت صرف عدالتی حکم کے تحت ہی ملے گی۔ ایسے لوگ جن کی پلی بارگین کی درخواست منظور ہوگی انہیں تاحیات سرکاری عہدے یا سرکاری ملازمت کیلئے نا اہل قرار دیدیا جائے گا۔

موجودہ پارلیمانی کمیٹی، جس میں دونوں ایوانوں کے ارکان شامل ہیں، کئی ماہ قبل تشکیل دی گئی تھی تاکہ ملک میں انسداد بدعنوانی کا نیا ادارہ قائم کیا جا سکے، اس کمیٹی نے ابتدائی کچھ اجلاسوں کے دوران اتفاق کیا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جگہ پر قومی احتساب کمیشن (نیک) قائم کیا جائے گا۔ اس بات پر بحث و مباحثہ کرکے فیصلہ کیا گیا تھا کہ مجوزہ نیک کا نگرانی کسی چیئرمین کی بجائے ایک آزاد کمیشن کے ماتحت ہوگی۔ نیک کے چیئرمین کا عہدہ تین سال کا ہوگا، موجودہ نیب کے چیئرمین کا عہدہ چار سال کی مدت کا ہے۔ کمیٹی نے اس بات پر بھی بحث و مباحثہ کیا تھا کہ کرپشن کی تعریف کیا ہونا چاہئے، اور ساتھ ہی اس میں تبدیلی اور اضافے کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ اپنے ابتدائی بحث و مباحثے کے بعد سے، کمیٹی ججوں اور جرنیلوں کو سویلین انسداد بدعنوانی کے دائرے میں لانے اور بلاتفریق احتساب کےا یشو پر بات کر رہی ہے لیکن اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہو پایا۔

موجودہ نظام میں ججز اور جرنیل قومی احتساب کے قانون کے دائرے سے باہر ہیں۔ انہیں اسلئے باہر رکھا گیا تھا کہ ان دونوں اداروں کا اپنا اندرونی احتساب کا نظام موجود ہے۔ 20 رکنی یہ کمیٹی 5؍ جنوری کو قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے تشکیل دی تھی تاکہ متنازع نیب قانون میں ترمیم کی جا سکے۔ کمیٹی کو تین ماہ کا وقت دیا گیا تھا کہ وہ نیب آرڈیننس 1999 میں ضروری ترامیم کے حوالے سے اپنی رپورٹ اسپیکر اسمبلی کو پیش کرے۔

تازہ ترین