• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈھائی ماہ پہلے اپنی نئی افغان پالیسی میں پاکستان کے حوالے سے جن منفی تاثرات کا اظہار کیا تھا، بہت تھوڑی ہی مدت میں ان کا بے بنیاد ہونا واضح ہوگیا ہے اور امریکی قیادت ازسرنو پاکستان سے بہتر تعلقات کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کرکے اس سمت میں پیش قدمی کرتی نظر آرہی ہے۔اس کا واضح مظاہرہ گزشتہ روزامریکی صدر کی نائب معاون اور سینئر ڈائرکٹر قومی سلامتی برائے جنوبی ایشیا لیز اکرٹس کی سربراہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے ایک اعلیٰ سطحی وفد کی پاکستانی سیکریٹری خارجہ اور آرمی چیف سے تفصیلی ملاقاتوں میں ہوا جن کا بنیادی مقصد خطے کے امن و استحکام کے لیے دونوں ملکوں کے تعلقات کو دوبارہ مستحکم کرنا تھا جبکہ باہمی مذاکرات کا یہ سلسلہ پروگرام کے مطابق جمعہ کو بھی جاری رہے گا جس میں وفد کی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی وزیر خارجہ خواجہ آصف سے ملاقات شامل ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان اور امریکہ نے دو طرفہ تعلقات میں سردمہری ختم کرنے، افغان مسئلے کے سیاسی حل اورباہمی دلچسپی کے تمام امور پر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے بقول سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے امریکی وفد کو افغان حکومت کی قیادت میں افغانستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے پاکستان کے موقف، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کوششوں، سرحد پار سے پاکستان کے اندر ہونے والے حملوں ، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے جاری مظالم اور لائن آف کنٹرول سمیت پاک بھارت سرحد پر بھارتی اشتعال انگیزی سے آگاہ کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی وفد نے جمعرات کی شام جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور جنوبی ایشیا کے لیے نئی امریکی حکمت عملی کی تفصیلات پر روشنی ڈالی۔آرمی چیف نے امریکی وفد کے ارکان کو خطے میں امن و سلامتی کے تعلق سے پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا اور اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ تمام رکاوٹوں کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے اور خطے کے امن واستحکام کے لیے مثالی جدوجہد کی ہے اور پاکستانی قوم اس سمت میں پیش رفت جاری رکھنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔ امریکی وفد کی پاکستان آمد کے موقع پر پاک فوج نے ایک بڑی کامیابی پانچ سال پہلے دہشت گردوں کی جانب سے اغواء کیے جانے والے ایک کینیڈین خاندان کی بازیابی کی شکل میں حاصل کی جس کے بارے میں امریکی خفیہ اداروں نے ایک دن پہلے ہی یہ اطلاع دی تھی کہ اس خاندان کو افغانستان سے پاکستان کے علاقے کرم ایجنسی منتقل کیا جارہا ہے۔یہ واقعہ جہاں ایک طرف پاک فوج کی اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا بین ثبوت ہے وہیں پاکستان کے اس مستقل موقف کے درست ہونے کا بھی واضح اظہار ہے کہ اگر امریکی ادارے دہشت گرد تنظیموں کے بارے درست معلومات فراہم کریں تو پاکستان ان کے خلاف خود کامیاب کارروائی کرنے کی مکمل اہلیت رکھتا ہے اور اس کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ صدر ٹرمپ نے کنیڈین خاندان کی بازیابی کے لیے پاک فوج کی کارروائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کی جانب سے ڈومور کی امریکی خواہش کی تکمیل کے لیے کیا جانا والا اقدام قرار دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی قوم مکمل اتفاق رائے سے دہشت گردی کی ہر شکل کے خلاف اپنی حکومت اور فوج کے ساتھ کھڑی ہے اور اس ضمن میں تمام پالیسی سازی ، فیصلے اور اقدامات کسی کی ڈکٹیشن کے بجائے ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے پاکستان خود کررہا ہے۔صدر ٹرمپ کواس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے پاکستان سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے آگے بڑھیں ، بھارت کی بے جا ناز برداریاں بند کرکے اسے پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام اختلافات کے پرامن اور منصفانہ حل پر آمادہ کریں اور افغانستان میں بھارت کے غیر ضروری کردار کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات کو قرار واقعی اہمیت دیتے ہوئے افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے کام کریں تو خطے کے امن و سلامتی کی راہیں یقیناًتیزی سے ہموار ہوسکتی ہیں

تازہ ترین