• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت مولانا فضل الرحمان میرے لئے محترم تھے، ہیں اور رہیں گے ۔ دوست تھے ، ہیں اور آئندہ بھی سمجھوں گا ۔ فاٹا کے معاملے پر ان دنوں وہ مجھ پر شدید برہم ہیں اورنوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جلسوں میں بھی مجھ پر اور میری وجہ سے جیو نیوز پر بھی برہم ہوگئے ہیں۔ مولانا کی جماعت کے سوشل میڈیا کے مجاہدین نے بھی مجھے بدنام کرنے کے لئے مہم کا آغاز کرکے گالم گلوچ اور فتوئوں کا بھرپور سلسلہ شروع کردیا ہے اور خود ان کے ذاتی معاون بھی اس کارخیر میں حصہ ڈال رہے ہیں لیکن میں اس دن سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جواب میں مولانا کے ساتھ ذاتیات پر اتر آئوں ۔ تاہم مولانا کے مجاہدین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ آپ لوگ جتنی بھی گالیاں دے دیں، تحریک انصاف والوں تک نہیں پہنچ سکوگے ۔ آپ مجھے جتنا بھی بدنام کرلیں ، محمود خان اچکزئی کے سپاہیوں جتنا نہیں کرسکتے ۔ میں اگر سالوں سے ان کے دبائو میں نہیں آیا اور ان دونوں سے متعلق اپنا موقف نہیں بدلا، تو کروڑوں انسانی زندگیوں کے ایشو پر اپنا موقف کیسے بدلوں گا۔ہاں اگر کسی نے دلیل سے قائل کرلیا تو اپنے موقف سے رجوع کرکے معافی مانگنے میں دیر نہیں لگائوں گا۔ میں ایک گناہ گار اور کمزور انسان ہوں ۔ پاکستانی سیاست کی طرح ،پاکستانی صحافت بھی اخلاقیات سے محروم ہوچکی ہے اور میری صحافت پر تو دوستی اور دشمنی کے جذبات بھی غالب آجاتے ہیں ۔ یوں بھی کم عقل ہوں لیکن کمزور انسان ہونے کے ناطے بعض اوقات میری عقل پر محبت، نفرت اور عزت وبے عزتی کے جذبات بھی غالب ہوجاتے ہیں ۔ اپنے ان گناہوں کا احساس ہے ، اس لئے جہاں ہمہ وقت اپنے رب سے بخشش کی دعا کرتاہوں ، وہاں ان گناہوں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لئے اپنی صحافت میں یہ لکیر کھینچ رکھی ہے کہ مذہب کے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ،پاکستان اور انسانی زندگی سے متعلق حتی الوسع کوئی رعایت نہیں کرتا ۔ میں انسان ہوں۔ کسی معاملے کو سمجھنے میں غلطی ہوسکتی ہے ، میری معلومات ناکافی ہوسکتی ہیں یا کسی اجتہادی اورتجزیاتی غلطی کا مرتکب ہوسکتا ہوں لیکن خود مولانا محترم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذکورہ تینوں معاملات میں ،میں کسی سے کوئی رعایت نہیں کرتا۔ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کا مسئلہ چونکہ میرے نزدیک لاکھوں انسانی زندگیوں اور پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے ، اس لئے مجھے مولانا جیسے محترم دوست اور بھائی کو بھی ناراض کرنا پڑا اور اسی لئے مجھے محترم محمود خان اچکزئی کو بھی تنقید کا نشانہ بنانا پڑا ۔ مکرر عرض ہے کہ مجھ سے سمجھنے یا بیان کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے لیکن میں اپنے رب کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میرا موقف کسی ذاتی مفادیا تعصب پر مبنی نہیں ۔سنہ 2000ء میں کالم نگاری شروع کی اور اسی سال پہلا کالم فاٹا کے موجودہ نظام کے خلاف لکھاور تب سے اب تک تسلسل کے ساتھ لکھتا اور بولتا رہا ہوں۔ میں سوچ سمجھ کر اس نتیجے تک آگیا ہوں کہ قبائلی عوام کو اس ذلت اور مصیبت بھری زندگی سے نکالنے کا یہی واحد راستہ ہے اور بعینہ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ مولانا محترم کا فاٹا سے متعلق موقف اصولوں یا میرٹ پر نہیں بلکہ سیاسی مصلحتوں پر مبنی ہے ۔
مجھے اس بات پر بھی حیرت ہورہی ہے کہ مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب ہم جیسے لوگوں پر غصہ نکالنے کی بجائے اپنے میاں نوازشریف اور سرتاج عزیز وغیرہ پر غصہ کیوں نہیں نکالتے ۔ ادغام کا معاملہ تو ہم نے نہیں اس حکومت نے شروع کیا ہے جس کا میں نہیں بلکہ مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب حصہ ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جب مولانا اور اچکزئی صاحب کے محبوب وزیراعظم میاں نوازشریف نے فاٹا اصلاحات کے لئے سرتاج عزیز صاحب کی سر براہی میں کمیٹی قائم کردی تو اس وقت ان دونوں نے اعتراض کیوں نہیں کیا اور میاں صاحب کو یہ تجویز کیوں نہیں دی کہ وہ کمیٹی قائم کرنے کی بجائے ریفرنڈم کرادیں ۔ میرے کالم اور ٹی وی پروگرام ریکارڈ پر ہیں کہ میں سرتاج عزیز کمیٹی پر معترض تھا ۔ اے این پی ، جماعت اسلامی اور فاٹا کے ایم این ایز نے بھی اس کی ساخت پر اعتراض کیا ۔ مجھے تو جب اس کمیٹی نے مشاورت کے لئے گورنر ہائوس پشاور میں ہونے والے اجلاس میںمدعو کیا تو یہ کہہ کر نہیں گیا کہ اس کمیٹی میں تو صرف حکومتی لوگ ہیں ۔ جب اس کمیٹی نے رپورٹ تیار کی تو اسے منظر عام پر لانے میں چھ ماہ لگائے گئے ۔ حکومت کا حصہ ہونے کے ناطے مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب کو پہلے دن سے علم تھا کہ اس کی سفارشات کیا ہیں ۔ اس پورے عرصے میں انہوں نے کبھی ریفرنڈم کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا اور آج بھی گورنر اور اکرم درانی صاحب کے ساتھ ایک کابینہ میں بیٹھے ہوئے وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی اور وہ اس نتیجے تک پہنچے کہ واضح اکثریت پختونخوا کے ساتھ انضمام کے حق میں ہے ۔ اب اگر حکومت جھوٹ بول رہی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی اس حکومت کے ساتھ کیوں بیٹھے ہیں جو جھوٹ بول کر قبائل کی مرضی کے خلاف فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے کی سفارش کرچکی ہے ۔ اس رپورٹ کی منظوری اس کابینہ نے دی ہے جس کا مولانا کی جماعت حصہ ہے ۔ جس اجلاس میں منظوری دی گئی اس میں یہ عاجز یا ادغام کے حامی سیاسی لیڈر نہیں بلکہ مولانا کے دست راست اکرم خان درانی بیٹھے تھے ۔ اس روز اگر انہوں نے اجلاس سے واک آئوٹ کیا ہو تو ہمیں بھی آگاہ کیاجائے ۔ جب ایسی کابینہ نے منظوری دی جس میں درانی صاحب بھی بیٹھے تھے تو اخلاقی طور پر یہ رپورٹ اب مولانا کی بھی رپورٹ ہے ۔ اگر واقعی ادغام کو مولانا محترم اور اچکزئی صاحب قبائل کے ساتھ ظلم قرار دیتے ہیںتو پھر رپورٹ کی کابینہ سے منظوری کے دن ہی ان کو میاں نوازشریف سے اپنا اتحاد توڑدینا چاہئے تھا۔ لیکن ان کا قبائل کا درد اور ان کے ساتھ اخلاص ملاحظہ کیجئے کہ آج بھی اس نوازشریف کے ساتھ ہیں کہ جس کی حکومت نے یہ رپورٹ تیار اور منظور کی ۔ اب تومولانا نے اپنا روایتی حربہ استعمال کرکے یہ کہنا شروع کردیا کہ فاٹا کو پختونخوا میں مدغم کرنا امریکی ایجنڈا ہے ۔ گویا وہ اپنی حکومت کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے ۔
اس حکومت کا تو ہم جیسے لوگ حصہ نہیں خود مولانا صاحب حصہ ہیں جو ان کے بقول امریکی ایجنڈے کے تحت فاٹا کو پختونخوا میں مدغم کرنا چاہتی ہے ۔ گویا مولانا خود اپنے آپ کو اور اچکزئی صاحب کوامریکی ایجنڈے پر عمل پیرا لوگوں کا حصہ قرار دلوارہے ہیں۔ استغفراللہ ۔اسی طرح پختونخوا میں فاٹا کے انضمام کا مطالبہ صرف پی ٹی آئی ، اے این پی ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نہیں کررہی بلکہ جماعت اسلامی اور مولانا سمیع الحق کی جے یوآئی بھی اس کے لئے سرگرم عمل ہیں ۔ اب یہ اگر امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے تو پھر تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ سراج الحق اور مولانا سمیع الحق بھی اس ایجنڈے کی تکمیل کررہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ روز مولانا محترم ان دونوں کے پاس ایم ایم اے کی بحالی کی درخواست کیوں لے کر گئے ۔ لوگ بجا طور پر یہ سوال اٹھائیں گے کہ جو شخص ایک انتخاب میں کامیابی کے لئے امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل سراج الحق اور مولانا سمیع الحق سے مل سکتے ہیں (میں نہ ان دونوں کو امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا سمجھتا ہوں اور نہ خود مولانا محترم کو۔ میرے نزدیک مولانا سمیت یہ سب محب وطن پاکستانی ہیں) اور اس حکومت کا حصہ رہ سکتے ہیں جو (مولانا کے بقول ) امریکی ایجنڈے کے مطابق قبائل کے ساتھ ظلم کی مرتکب ہورہی ہے تو وہ کیوں کر سیاسی اور انتخابی مفاد کی خاطر فاٹا سے متعلق غیراصولی موقف نہیں اپنا سکتے۔تضاد دیکھئے کہ مولانا فاٹا کو الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے جلسے کسی قبائلی ایجنسی میں نہیں بلکہ مینگورہ، نوشہرہ اور پشاور میں منعقد کررہے ہیں ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ پشاور ،باجوڑ اور وزیرستان والوں کے لئے یکساں مرکزکی حیثیت رکھتا ہے ۔ مولانا اگر باجوڑ میں جلسہ رکھے تو وزیرستان سے بہت دور ہے اور اگر وزیرستان میں رکھیں تو باجوڑ بہت دور ہے ۔ان سب کا مرکزی پوائنٹ پشاور ہے اسی لئے انہیں قبائلی جرگہ اور جلسہ بھی پشاور میں طلب کرنا پڑتا ہے ۔ اگر مولانا واقعی سمجھتے ہیں کہ قبائلی علاقوں کا الگ صوبہ بننا ممکن ہے تو پہلی فرصت میں اپنی حکومت سے گورنر ( جو قبائلی علاقوں کا چیف ایگزیکٹو ہے ) کا دفتر اور فاٹا سیکرٹریٹ کسی قبائلی علاقے میں منتقل کردیں۔ یا پھر چلو کسی جلسے میں یہ اعلا ن کردیں کہ الگ صوبے کی صورت میں فاٹا کا دارالحکومت کونسی ایجنسی ہوگی ۔ پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ بعض نعرے بظاہر بڑے دل خوش کن ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر زہر چھپا ہوتا ہے اور قبائل کے الگ صوبے کا نعرہ بھی ایسا ہی ایک نعرہ ہے ۔اگر قبائل کا الگ صوبہ ممکن ہوتا تو اس کے قیام سے مجھ سے بڑھ کر خوشی کسی اورکو نہ ہوتی ۔ میں ذاتی طورپر چھوٹے اور زیادہ صوبوں کا حامی ہوں اور اگر انتظامی بنیادوں پر بنیں لیکن جب کوئی کام ممکن ہی نہ ہو تو پھر اس پر اصرار کرنے کے اس کے سوا کیا معنیٰ ہوسکتےہیں کہ جو کچھ اصلاح ہونے جارہی ہے ، اس کا بھی راستہ روکا جائے ۔ مولانا محترم اور اچکزئی صاحب کو اختلاف کابھی حق ہے اور احتجاج کا بھی لیکن وہ اختلاف کرتے ہیں تو اپنے میاں نوازشریف سے کریں اور احتجاج کرتے ہیں تو اپنی حکومت کے خلاف کریں ۔ امریکی ایجنٹ قرار دلوانا ہے تو میاں نوازشریف اور سرتاج عزیز کو دلوادیں ۔ہم غریبوں پر غصہ کیوں نکالتے ہیں ۔ انہیں غصہ نکالنا ہے تو مسلم لیگ (ن) سے اتحاد ختم کرکے اس حکومت پر غصہ نکال لیں جس نے فاٹا اصلاحات کی سفارشات تیار کی ہیں ۔فاٹا ادغام کی سفارش اس حکومت نے کی ہے جس کے یہ دونوں حضرات حصہ ہیں اور غصہ ہم پر ۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟1973 کے آئین کے تناظر میں یہ کہاں کا اصولی موقف ہے؟

تازہ ترین