• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشکل کچھ ایسی بنی کہ سمجھ جواب دے گئی۔ اگرچہ وہ اس سے کہیں زیادہ کڑا وقت دیکھ چکے تھے جب اٹک کی کال کوٹھڑی میں روزانہ آنکھ کھلتے ہی پہلا کام اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر چٹکی بھرنا ہوتا اور دوسرا کام کوٹھڑی کے سلاخوں والے گیٹ کے سامنے پانچ فٹ کے فاصلے پر دس دس قدم کا لیفٹ رائٹ کرنے والے دو سنتریوں کا بغور مشاہدہ کرنا۔ اگرچہ انکا کوٹھڑی کا خوف اتر چکا تھا لیکن خواہش انکی یہ تھی کہ اس دفعہ کم از کم وہ کوٹھڑی میں نہیں جائیں گے۔ اسی شش و پنج میں تھے کہ ایک دن ڈاکٹر عطا الرحمان کا ٹائم مشین کے حقیقت کا روپ دھارنے والا کالم پڑھ کرمنہ اندھیرے ڈرائیور سے کہا کہ کالے شیشوں والی گاڑی نکالو اور پندرہ منٹ بعد وہ بنی گالہ کی ایک کوٹھی کے باہر موجود تھے۔ ہارن پر ہارن کی آواز سن کر سر پر نماز والی ٹوپی پہنے ہاتھ میں بہشتی زیور کے صفحوں میں انگلی دبائے ڈاکٹر قدیر ناگواری سے بھاگے بھاگے آئے۔ کالا شیشہ جونہی کوئی آدھا فٹ نیچے ہو کر رک گیا تو بے اختیارانہوں نے بانہیں کھول دیں، پھر جانے کیا سوجھی کہ بازوواپس سمیٹ لئے، چہرے پر سنجیدگی طاری کر لی اور چوکیدار کو گاڑی پورچ میں لگوانے کا اشارہ کیا۔چند لمحوں میں ڈرائنگ روم کے اندر نواز شریف اور ڈاکٹر صاحب سر جوڑ کربیٹھے تھے۔ پہلے تو نواز شریف نے ڈاکٹرصاحب کو ایٹمی دھماکوں والا کارنامہ یاد دلایا پھر مشرف نے دونوں پر جو کوہ گراں گرائے، انکا ذکر ہوا۔ بالآخر نواز شریف نے مدعا بیان کیا کہ ذوالفقار بھٹو سے ملنا چاہتا ہوں۔ کافی سوچ بچار کے بعد ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ ٹائم مشین ابھی مارکیٹ میں تو نہیں آئی لیکن جوانی کے زمانے کا ایک دوست سائنسدان جو ٹائم مشین پر کام کر رہا تھا، مدد کر سکتا ہے۔ طے یہ ہوا کہ احتساب عدالت میں فرد جرم عائد ہونے کے بعد نواز شریف جب اہلیہ کی عیادت کرنے لندن جائیں گے تو سارا بندوبست ہو چکا ہو گا۔ ایک جھٹکے سے نواز شریف کی آنکھ کھلی۔ بھٹو کال کوٹھڑی میں چھت کو گھور رہے تھے، انہیں ابھی تک اس دشمن نما دوست کی بات کا یقین نہیں آ رہا تھا کہ سب ختم ہو چکا ہے۔ نواز شریف کی نظر فورا اپنی گھڑی پرپڑی جس پرتاریخ تھی 4اپریل، 1979 ءاور وقت رات کے ایک بجے کا۔ نواز شریف کو سامنے دیکھ کر ذوالفقار بھٹو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے لیکن جب انہوں نے اپنا تعارف کرایا اور ساری روداد سنا کر بولے کہ 14 اکتوبر، 2017 ءسے ٹائم مشین کے ذریعے آپکی نصیحت لینے آیا ہوں تو بھٹو بہت خوش ہوئے۔کہنے لگے پہلی خوشی تو اس بات کی ہے جب برکلے میں پڑھتا تھا تو ٹائم مشین فلم دیکھی تھی،آج سچ ہوگئی اور دوسری خوشی اس بات کی ہے کہ آپ تین دفعہ منتخب وزیر اعظم بننے کے باوجود ابھی تک زندہ ہیں۔ نواز شریف بولے، سر آپکے پاس صرف تین گھنٹے کا وقت بچا ہے، برائے مہربانی رہنمائی کریں۔
بھٹو ایک گہری سوچ میں ڈوب گئے، چند منٹ گزر گئے تو گویا ہوئے۔ میاں صاحب! پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ امریکہ کو آن بورڈ رکھو۔ پہلے بھی اگرآپ بچ گئے تھے تو اللہ کے بعد امریکہ تھا جس نے آپکو بچایا تھا۔ یاد ہے مشرف کی بغاوت سے پہلے آپ نے شہباز شریف کو امریکہ بھیج کر ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا۔ پھر اصل معاملات تو آپ کی اور بل کلنٹن کی ذاتی ملاقات میں طے ہوئے تھے جب کلنٹن آپکی معصومیت پر حیران رہ گیا تھا کہ آپکو معلوم ہی نہیں تھا کہ کارگل کی جنگ کے دوران آپ کا ملک ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ کلنٹن نے آپکو دو آپشن دیئے تھے، آپ نے اس وقت کلنٹن کی بات مان کر درست فیصلہ کیا اور پھر آپ نے دیکھ لیا کہ کلنٹن نے کیسے آپکی جان بچا کر اپنا وعدہ پورا کیا۔ جس افسر نےڈی جی ملٹری انٹیلی جنس کی حیثیت سے آپکو کارگل کے اصل حالات پر بریفنگ دی تھی، اس نے تو بہت بعد میں ٹی وی انٹرویوز کے دوران بتایا کہ آپ انکی بریفنگ کے بعد ملک اور اداروں کے وقار کی خاطر امریکہ کی مدد حاصل کرنے واشنگٹن پہنچے تھے۔ آپکو معلوم ہے کہ حالات کی سنگینی کیا تھی کہ صدر کلنٹن نے امریکہ کی یوم آزادی تقریبات چھوڑ کرآپ سے ملاقات کی تھی۔ لیکن جب آپ اٹک قلعے میں بند تھے، اس وقت تک تو عوام کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا اور آپکو کارگل جنگ کا ولن بنا کر پیش کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی آپکو معلوم ہے کہ عوام بھلے برادر ملک کو سمجھتی رہے لیکن آپ کو بچانے میں اصل کردار صدر کلنٹن کا تھا جو انڈیا کے دورے کے دوران چند گھنٹے نکال کر پاکستان صرف اسلئے آئے تھے کہ مشرف سے آپکی زندگی کی گارنٹی لے سکیں۔ ڈھائی گھنٹے کے بعد اگر میں پھانسی پر جھولنے والا ہوں تو اسکی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ امریکہ نہ صرف مجھے بچانے نہیں آیا بلکہ مجھے قوی یقین ہے کہ ضیاالحق کو شہہ دینے میں اسکا ہاتھ ہے۔امریکہ کا خیال ہے کہ پاکستان کو ایٹم بم بنانے سے باز رکھنے کیلئے میرا منظر عام سے ہٹنا از حد ضروری ہے۔
دوسری نصیحت یہ ہے کہ اب آپ چونکہ وزیر اعظم نہیں رہے اس لئے آپکی صدر ٹرمپ سے براہ راست ملاقات تو ممکن نہیں لیکن آپکی درست پالیسیوں اور ترجیحات کی وجہ سے آپکو جو بین الاقوامی حمایت حاصل ہے اسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے اعلی ترین سطح سے گارنٹی ضرور لے لیں۔ لیکن اس دفعہ بات چیت کیلئے گھر کے لوگوں کی بجائے اپنے انتہائی قابلِ بھروسہ ساتھیوں کو بیچ میں ڈالنا پڑے گا۔ اس مقصد کیلئے آپ نے خواجہ آصف اور احسن اقبال کا جو انتخاب کیا ہے وہ مجھے بظاہر ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات جتنے بھی قریبی اور بہتر کیوں نہ ہوں لیکن بوجوہ سب سے بڑی گارنٹی ابھی بھی امریکہ ہی کی ہے۔ لیکن اسکا یہ مطلب بھی نہیں کہ شی چن پنگ کی گارنٹی کیلئے آپکو کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین