• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ترقی جمہوریت ہی سے ہوگی، کوئی ٹیکنو کریٹ یا غیرجمہوری حکومت مسائل حل نہیں کرسکتی‘‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے یہ الفاظ ایک ایسی حقیقت کے عکاس ہیں جو آج کی دنیا میں اپنی صداقت پوری طرح منوا چکی ہے ۔ وزیر اعظم نے گزشتہ روز ضلع اٹک کے علاقے جھنڈیال میں تیل و گیس کی دریافت کے منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس حوالے سے مزید کہا کہ ملک میں آج جو ہمہ جہت ترقی جاری ہے یہ جمہوریت ہی کا نتیجہ ہے۔یہ ترقی ان پالیسیوں کی بدولت ہورہی ہے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف نے شروع کیں اور ہم ان کو آگے بڑھارہے ہیں ۔ وزیر اعظم عباسی نے حکومت کے تمام مخالفین کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ 1999ء سے2013ء تک کے کام کو ایک طرف رکھ دیں اور معیشت سمیت کوئی بھی شعبہ لے لیں، ان شاء اللہ ہمارے چار سال کے کام ان کے پندرہ سال کے کاموں پر بھاری نکلیں گے۔وزیر اعظم کے مطابق گزشتہ چار سال میں تیل اور گیس کے 103 ذخائر دریافت ہوئے،ملک میں آج ہر شعبے کو گیس فراہم کی جارہی ہے جبکہ جھنڈیال کے منصوبے سے یومیہ ڈھائی ہزار بیرل تیل اور اکیس ملین کیوبک فٹ گیس کے علاوہ پچاس ٹن ایل پی جی بھی حاصل ہوگی۔وزیر اعظم نے اعداد وشمار کی روشنی میں سامعین کو بتایا کہ موجودہ حکومت کا ترقیاتی پروگرام پچھلے پندرہ برسوں کے مجموعی ترقیاتی پروگرام سے بڑا ہے۔قیام پاکستان کے بعد سے2013ء تک ڈیم بناکر اور پاور پلانٹ لگاکر جو بجلی پیدا کی جارہی تھی،اس کی کل مقدار بیس ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ تھی جبکہ موجودہ حکومت چار سال میں مزید دس ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کرچکی ہے۔اس موقع پر وزیر اعظم نے علاقے کے پچاس سے زائد دیہات کو گیس فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا۔وزیر اعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ جمہوریت مضبوط ہوگی تو ملک میں ترقی ہوگی،اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے،ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے ہمیں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں توانائی کے بحران کے خاتمے، امن وامان کی بحالی، دہشت گردی پر کنٹرول،انفرا اسٹرکچر کی بہتری اور سب سے بڑھ کر سی پیک کاانقلابی منصوبہ قومی ترقی اور خوشحالی کے ایسی کامیابیاں ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں چار سال کے دوران قومی معیشت کی بہتری کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ یہ سب ایک منتخب جمہوری حکومت کی کوششوں کا نتیجہ ہے جس کی کارکردگی کے بہت سے پہلو یقینا قابل توجہ بھی ہیں اور ان پر جائز تنقید بھی بالکل درست اور خود جمہوریت کا تقاضا ہے کیونکہ جمہوریت آزمائش اور اصلاح کے طریق کار پر مبنی نظام کا نام ہے۔ کسی بھی انسانی نظام کی طرح یہ غلطیوں سے پاک ہے نہ ہوسکتا ہے مگر غلطیوں کی بروقت نشان دہی اور درستگی کا ایک خودکار نظام جمہوریت کے اندر ہی موجود ہوتا ہے۔جبکہ آمرانہ اور غیرجمہوری حکومتوں میں اصلاح و درستگی کا یہ نظام موجود نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ غیرجمہوری طرز حکومت عوام میں قومی معاملات میں عدم شرکت اور محرومی کے احساس کو بھی جنم دیتا ہے اور یہ احساس بے بنیاد نہیں بلکہ حقیقی اسباب کی وجہ سے پروان چڑھتا ہے۔ پاکستان میں ہم اپنے اکثریتی بازو کی علیحدگی کی صورت میں اس تجربے سے دوچار ہوچکے ہیں جبکہ غیرجمہوری ادوار ہی میں ملک کے مختلف علاقوں میں علیحدگی کی تحریکیں کبھی پختونستان، کبھی سندھو دیش، کبھی جناح پور اور کبھی آزاد بلوچستان کی شکل میں اٹھتی رہی ہیں۔ جمہوریت کا تسلسل ملک کے متفقہ آئین کا بھی لازمی تقاضا ہے اور قوم کی بھاری اکثریت اس پر یکسو ہے ٹیکنو کریٹ حکومت یا ایسی ہی دیگر تجاویز کا کسی بھی جانب سے زیربحث لاکر آئینی و جمہوری نظام کے حوالے سے عوام میں بے یقینی پھیلانا کسی بھی طور قوم مفاد میں نہیں ہے لہٰذا تمام ریاستی اداروں کو دوسرے اداروں کے دائرہ کار میں مداخلت سے گریز کرتے ہوئے اپنے آئینی حدود میں رہ کراپنی ذمہ داریوں کی انجام دینے کا اہتمام کرنا چاہئے۔

تازہ ترین