• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں اس وقت پرائمری سے میٹرک کی سطح تک کے سوا دو کروڑ سے زیادہ بچے اسکول سے محروم ہیں۔ 21فیصد پرائمری سکول ایک ہی ٹیچر سے کام لے رہے ہیں۔ 14فیصد اسکول ایک ہی کمرے پر مشتمل ہیں۔ اس ضمن میں چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ دگرگوں صورت حال بلوچستان کی ہے۔ دوسری طرف بڑے شہروں میں قائم سرکاری اسکولوں میں بہت بڑی تعداد میں بچے ہر سال داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو والدین انہیں تعلیم دلانا نہیں چاہتے یا خود بچے تعلیم سے بھاگتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کا ناخوشگوار ماحول اور نجی اسکولوں کی بھاری بھرکم فیسیں بھی اس سلسلے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس صورت حال میں اچھی خبر یہ ہے کہ محکمہ تعلیم حکومت پنجاب نے سرکاری اسکولوں میں داخلے کی شرح بڑھانے اور اسے کامیاب بنانے کیلئے صوبے کے تمام اضلاع میں باضابطہ طور پر ٹیمیں تشکیل دی ہیں یہ فیصلہ دوسرے صوبوں کے لیے قابل تقلید ہے یہ بھی ضروری ہے کہ ٹیموں کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ وہ محض ٹی اے ڈی اے وصول کرنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ کام کر کے دکھائیں۔ ان ٹیموں کی ذمہ داری ہو گی کہ جو بچے اسکولوں میں داخل نہیں ہیں انہیں تعلیم کی طرف راغب کر کے اسکولوں میں داخل کرایا جائے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہے کیونکہ غریب والدین انہیں چائلڈ لیبر کے طور پر بھٹہ مالکان یا دوسرے کام کرانے والوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ یہ بچے اکثر اینٹوں کے بھٹوں، قالین بافی کے مراکز، چائے کے ہوٹلوں اور ورکشاپوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر بچوں کو محض اسکول میں داخل کرا دینا مسئلے کا حل نہیں، اسکولوں میں تعلیمی معیار بلند کرنا اور بچوں کا تعلیم جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ محکمہ تعلیم کو چاہئے کہ اسکولوں کی عمارتوں میں لیبارٹریوں اور بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں، اساتذہ کی تعداد کو پورا کیا جائے اور ان کی کارکردگی کو مانیٹر کیا جائے۔

تازہ ترین