• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس سے قبل کہ میں اپنی آنکھوں کے سامنے ’’بدلتی تاریخ‘‘ پہ روشنی ڈالوں اور ان واقعات کی تردید یا تصحیح کروں جو ہمارے معزز لکھاری بلاتحقیق قائداعظم کے بارے میں لکھ رہے ہیں، مجھے محترم سہیل وڑائچ صاحب کا 6اکتوبر والا کالم یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے بجا لکھا ہے کہ قائداعظم نے اپنے مخالفوں کے لئے کبھی بھی غداری، نااہلی اور کفر کے فتوے جاری نہیں کئے۔ بلاشبہ قائداعظم ایک اعلیٰ درجے کا جمہوری اور آئینی ذہن رکھتے تھے، برداشت، تہذیب اور دلیل ان کی فکر اور سیاسی حکمت عملی کے نمایاں اصول تھے۔ افسوس وقت گزرنے کے ساتھ ہماری سیاست ان بنیادی اصولوں سے تہی دامن ہوگئی ہے اور دشنام طرازی کی اسیر ہوگئی ہے جس کے ان گنت مظاہرے لوگوں کو جمہوریت سے بدظن کررہے ہیں۔ اس حوالے سے اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قائداعظم نے بطور گورنر جنرل صوبہ سرحد (کے پی ) کے دورے کے دوران خان غفار خان سے دو ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر خان برادران کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کرنا تھا لیکن سچ یہ ہے کہ انہیں مایوسی ہوئی۔ چنانچہ دورے کے اختتام پر پشاورمیں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ان حضرات کو ناقابل اعتماد قرار دیا۔ یہ الگ بات کہ خان برادران اور .نیپ کے حامی آج تک مسلسل جھوٹ لکھتے اور بولتے آرہے ہیں کہ خان غفار خان کی قائداعظم سے ملاقات ہی نہ ہوسکی، اسے خان عبدالقیوم خان نے سبوتاژ کر دیا۔ میں نے اس دورکے اخبارات میں ان ملاقاتوں کی تفصیل پڑھ کر اس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ یہ مضمون میری کتاب ’’درد آگہی‘‘ میں شامل ہے۔ رہی یہ بات کہ قائداعظم نے اپنی زندگی میں کسی کو نااہل قرار نہیںدیا؟ اس ضمن میں یہ ذکرکرنا مناسب لگتا ہے کہ قائداعظم کرپشن کے شدید مخالف تھے اور رشوت ستانی، بدعنوانی وغیرہ کسی صورت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ ملک کے سربراہ اور بابائے قوم کی حیثیت سے وہ واضح اور سخت مثالیں قائم کرنے کے حق میں تھے تاکہ آغاز سے ہی سیاسی انتظامی مشینری کا قبلہ درست رہے اور انہیں یقین ہو کہ بدعنوانی کسی صورت بھی معاف نہیں کی جائے گی۔ میں نے اپنی کتاب ’’مسلم لیگ کا دور حکومت‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے کہ جب گورنر سندھ نے 1948ء کے آغاز میں وزیراعلیٰ سندھ جناب ایوب کھوڑو کی کرپشن کے ثبوت قائداعظم کے سامنے رکھے تو انہیں صدمہ ہوا۔ چنانچہ گورنر سندھ غلام حسین ہدایت اللہ نے گورنر جنرل کی منظوری سے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے کھوڑو کو برطرف کردیا اوران کے خلاف 62الزامات کی سماعت کے لئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور جسٹس شہاب الدین ڈھاکہ ہائی کورٹ پر مشتمل ایک عدالتی ٹریبونل تشکیل دیا گیا جس نے کھوڑو کو کئی الزامات میں مجرم قرار دیا۔ شاید قارئین کو آج کی سیاسی صورت حال میں تھوڑی سی مماثلت نظر آئے کہ کھوڑو وزارت اعلیٰ سے نکلنے کے باوجود سندھ مسلم لیگ کے لیڈر تھے اور سندھ اراکین اسمبلی پرحد درجہ اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ دسمبر 1948ء میں جب ان کے خلاف مقدمہ زیر سماعت تھا تو وہ سندھ مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوگئے مگر انہوں نے ٹریبونل کا فیصلہ سنائے جانے تک اس منصب پر فائز ہونے سے احتراز کیا گویا الیکشن جیتنا محض سیاسی قوت کا مظاہرہ تھا۔ (ظہورپاکستان از چوہدری محمد علی ص 433)
اسی افسوسناک صورتحال سے نپٹنے کے لئے مرکزی اسمبلی نے 1949میں ’’پروڈا‘‘ کا قانون منظور کیا۔ چنانچہ اس قانون کے تحت گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے کھوڑو کو الزامات ثابت ہونے پر دو سال کے لئے نااہل قرار دیا اگرچہ گورنر شیخ دین محمد نے سات سال نااہلی کی سفارش کی تھی۔ ان سطور کو پڑھتے ہوئے شاید آپ کو یوں لگے جیسے تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔
کبھی کبھی کالم اور معزز لکھاریوں کی تحریریں پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کتابیں پڑھنے اور حقائق کی تحقیق و تصدیق کرنے کی عادت وفات فرما چکی ہے۔ سنی سنائی پر گزارہ ہوتاہے اور اس طرح ہماری معصومیت سے فائدہ اٹھا کر تاریخ کو بدلا جارہا ہے۔ معصومیت بروزن جہالت کیونکہ ماشاء اللہ بڑے بڑے جغادری اور سینئر لکھاری اپنے ملک کی تاریخ کا صحیح ادراک نہیں رکھتے اور نہ ہی اسے پڑھنے کی زحمت فرماتے ہیں۔ کتابیں پڑھنا تو کجا مجھے یقین ہے کہ وہ اخباری کالم بھی نہیں پڑھتے ورنہ پہاڑی غلطیاں نہ کریں۔ سوشل میڈیا جھوٹ کا منبع ہے، جھوٹ اور گمراہ کن انفارمیشن پھیلانے کا سب سے بڑا مجرم ہے اور ہمارے سوشل میڈیا کے پجاری تصدیق کی زحمت کئے بغیر ہر قسم کا جھوٹ تسلیم کر لیتے ہیں اور پھر اسے مزید ہوا دیتے ہیں۔ یوں ہماری گناہ گار آنکھوں کے سامنے ہماری تاریخ بدلی جارہی ہے اور نوجوانوں کے کلین ذہنوں میں بٹھائی جارہی ہے۔ چند روز قبل سوشل میڈیا پر تیزی سے گھومتے ہوئے علامہ اقبال کے ایسے اشعار دیکھے جو علامہ نے کبھی کہے ہی نہیں تھے۔ قائداعظم سے منسوب ایک بیان کو خوب ہوا دی گئی جس کے مطابق قائداعظم نے فرمایا تھا کہ تحریک پاکستان کی کامیابی میں اصغر سودائی کا 25فیصد حصہ ہے۔ اصغر سودائی کا تعلق سیالکوٹ سے تھا، وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علم تھے، تحریک پاکستان سے وابستہ تھے اور انہوں نے وہ مشہور نظم کہی تھی جس کا ایک مصرعہ کارکنوں کا نعرہ بن گیا اور اصغر سودائی کو تاریخ میں زندہ و جاوید کر گیا۔ وہ مصرعہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ اس سے قطع نظر تاریخی سچ یہ ہے کہ قائداعظم نہ کبھی اصغر سودائی سے ملے اور نہ ہی یہ بیان دیا جو ان سے کسی مقصد کے تحت منسوب کردیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک محترم کالم نگار نے لکھا کہ جب گیارہ ستمبر 1948ء کو قائداعظم شدید علالت کی حالت میں کراچی کے ہوائی اڈے پر اترے تو ان کے استقبال کے لئے کوئی اہم شخصیت موجود نہیں تھی۔ کئی دفعہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ قائداعظم کی آمد کو مادر ملت کے حکم پر پرائیویٹ قرار دے کر تقریباً خفیہ رکھا گیا تھا لیکن اس کے باوجود جب لیاقت علی خان کو تاخیر سے اطلاع ملی تو وہ فوراً ہوائی اڈے پر پہنچے۔ راستے میں ایمبولینس خراب ہوئی تو وہ 35/40 منٹ کے لئے دوسری ایمبولینس کے آنے تک وہیں موجود رہے۔ اس تاریخی سچ کی تصدیق قائداعظم کے ساتھ آنے والے اے ڈی سی کیپٹن (بعدازاں بریگیڈیئر) نور حسین بھی کر چکے ہیں اور سیکورٹی افسر بھی کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے بریگیڈیئر نور حسین کا ’’دی نیوز‘‘ میں 23مارچ 1995ء کو مضمون بھی چھپا تھا۔
آخر میں محترم ڈاکٹر رمیش کمار ایم این اے کا کالم بتاریخ 5اکتوبر 2017ء محل نظر ہے جو بدلتی تاریخ کا اہم نمونہ ہے۔ جوگندرناتھ منڈل کے حوالے سے انہوں نے کچھ لکھا ہے اس پر تبصرہ نہیں کروں گا لیکن ان تاریخی حقائق کی تصحیح اپنا فرض سمجھتا ہوں جو صریحاً غلط ہیں۔ پہلے ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں ’’قیام پاکستان کے وقت پہلی آئین ساز اسمبلی کے اس اجلاس کی صدارت کا اعزاز جوگندرناتھ منڈل کو حاصل ہوا جس میں قائداعظم نے پہلے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ پاکستان کا پرچم پہلی بار منڈل کی زیر صدارت اجلاس میں لہرایا گیا‘‘۔
تاریخی سچ یہ ہے کہ نہ قائداعظم نے گیارہ اگست کو منڈل کی زیر صدارت دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں حلف اٹھایا نہ ان کی صدارت میں پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا۔ منڈل صاحب کو اسمبلی کی صدارت کا فریضہ صرف اسمبلی کے صدر کے انتخاب کے لئے سونپا گیا تھا۔ ان کی صدارت میں قائداعظم کو متفقہ طور پر دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا جس کے ساتھ ہی منڈل صاحب نیچے اتر کر اراکین اسمبلی کے ساتھ بیٹھ گئے اور صدارت قائداعظم نے سنبھال لی۔ انہی کی صدارت میں پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا۔ قائداعظم نے 15اگست 47کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عبدالرشید کے سامنے حلف اٹھایا۔ اس وقت کے آئین کے مطابق قائداعظم کو جولائی 47 میں گورنر جنرل نامزد کردیا گیا تھا اس لئے انہیں دستور ساز اسمبلی میں حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہی باتیں چند برس قبل ایک معاصر روزنامہ کے ایک مقبول کالم نگار نے لکھی تھیں تو میں نے تصحیح کی تھی۔ لگتا ہے ڈاکٹر صاحب نے میری وضاحت کو پڑھنا مناسب نہیں سمجھا۔ جناب منڈل کو پاکستان نے بڑی عزت دی لیکن انہوں نے ہندوستان ہجرت کرلی۔ اس موضوع پر پھر کبھی لکھوں گا۔ فی الحال تاریخ کے بدلنے کا منظر دیکھتے جائیے اور مطالعہ و تحقیق کی عادت ڈالئے ورنہ.....

تازہ ترین