• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ پرسوں رات کی بات ہے صبح کے چار بجے ایک خواب نے میری آنکھ کھول دی ۔عجیب خواب تھاچپک کر رہ گیا تھاآنکھ سے۔ اس کا ایک ایک جزو شعور میں موجود تھا۔جیسے میں کسی خواب سے نہیں حقیقت سے گزر کر آیا ہوں۔ خواب کیا تھا نور کا دریا رواں دواں تھا اس کے کنارے پر ایک بہت شاندار خیمہ لگا ہوا تھا۔ جیسے پرانے زمانے کے بادشاہوں کے سفر کے دوراں پڑائو میں خیمے ہوا کرتے تھے ۔عجیب خیمہ تھا اس کی جالی دار قناتوں سے دریائے نور کی لہریں دکھائی دیتی تھیں ۔اس خیمے میں کوئی بڑے بزرگ گائو تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے اور میں ان کے حضور پاکستان کے مسائل بیان کر رہا تھا کہہ رہا تھا کہ پاکستان کے حالات بہت دگر گوں ہیں۔وہ بزرگ کہنے لگے ۔دراصل ملکِ پاکستان پرجس ابدال کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے وہ بڑا لاپروااور بے نیاز سا آدمی ہے ۔ دھیان ہی نہیں دیتاکام پر۔میں نے اس ابدال سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے بتایا کہ لاہور میں ماڈل ٹائون موڑ کے قریب ایک ریڑھی والا خربوزے بیچ رہا ہے وہی پاکستا ن کا ابدال ہے۔
میں خواب میں اسی خربوزےبیچنے والے ابدال کے پاس پہنچ گیا اورمیں نے اس سے پوچھا ’’خربوزے میٹھے ہیں۔‘‘تو کہنے لگا ’’چیک کرلو‘‘ میں نے خربوزہ کاٹااسے چکھا اورپھر زمین پر پھینک کر کہا’’ یہ تو پھیکا ہے ‘‘۔اس نے کہا’’اچھا چلو دوسرا اٹھا لو‘‘ یوں میں نے ایک ایک کرکے تمام خربوزے کاٹ کرزمین پر پھینک دئیے مگراس ابدال نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا ۔نہ ہی خربوزے کاٹنے سے روکا اور نہ ہی ان کی قیمت طلب کی ۔ میں ماڈل ٹائون موڑ سے چلا اورپھر سیدھا اسی بزرگ کی بارگاہ میں پہنچ گیا انہیں خربوزے کاٹ کر پھینکے کا واقعہ بتایا اور اس بات پر حیرت اظہار کیا کہ میں نے سارے خربوزے ضائع کردئیے مگر اس ابدال کے ماتھے پر ایک شکن بھی نہیں ابھری ۔تو بزرگ کہنے لگے ۔’’ میں نے کہا تھا نا اسے کسی بات کی پروا ہی نہیں ۔وہ بس یہی سمجھتا ہے کہ یہ اُس کا منصب ہی نہیں کہ وہ کسی کو کچھ کہے‘‘
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کل رات پھر میں نے وہی خواب دیکھا ۔میں اسی خیمے میں اسی بزرگ کے پاس موجود تھا۔اسی طرح دریائے نور کی رنگ بکھیرتی لہریں دکھائی دے رہی تھیں اور میں بزرگ سے کہہ رہا تھاکہ’’ میرے ملک کے حالات کیسے بہتر ہوں گے۔ دہشت گردی میں کمی توواقع ہوئی ہے مگر کرپشن کی سطح کم نہیں ہورہی ، بارڈر پر صورت حال بہتر ہے مگر مجموعی طور پر اپنی خارجہ پالیسی ہےہی نہیں ۔ امریکہ بہادر ناراض ہو کر داعش کے لشکر تورا بورا کے پہاڑوں میں آباد کررہا ہے۔مہنگائی کی شرح بھی نیچے آ نے کانام نہیں لے رہی ۔ معاشی صورت حال انتہائی دگرگوں ہے یہاں تک پہنچ گئی کہ افواج ِ پاکستان کے ترجمان نے اپنی فکرمندی کا اظہار کردیا ہےجس پر حکومت کو بڑی تکلیف ہوئی ہے۔وزیر داخلہ نے باقاعدہ منع کیا ہے کہ فوجی ترجمان ایسے بیانات سے گریز کریں جیسے وہ پاکستانی نہیں ہیں ۔جتنے پاکستان کے ٹھیکیدار نواز شریف اور آصف زرداری ہیں ۔اتنا ہی پاکستان میرا بھی ہے ۔ فوج میں ملازمت کرنے والے میرے بھائی کا بھی ہے مگر کچھ لوگ فوج اور عوام میں نفرت بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں جو اس ملک کےلئے بہت نقصان دہ بات ہے ۔ایک بار پہلے ڈان لیکس کے معاملے میں ایک ٹویٹ پر بھی اس طرح کا جھگڑا ہوا تھا ۔فوج کے ترجمان نے وہ ٹویٹ واپس لے لیا تھاپھر عدالت نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیاتھا۔اب پھر صورت حال ویسی ہی ہے عمران خان کہہ رہے ہیں کہ کٹھ پتلی حکومت جاتی ہے تو جائے مگرجمہوریت نہیں جانےدیں گے ‘‘اُس بزرگ نے مسکراتی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا ’’ہم نے پاکستان کا ابدال بدل دیا ہے نا‘‘ ۔ میں نے نئےابدال سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ کہنے لگے ۔وہ بہت جلالی ابدال ہے تم اس سے نہ ملو تو زیادہ بہتر بات ہے مگر میرے اصرار پر انہوں نے کہا’’ بادامی باغ بس اڈے پر جو آدمی اسلام آباد جانے والی سواریوں کو پانی پلا تا ہے ۔ وہی پاکستان کا نیاابدال ہے ۔میں اگلے ہی لمحے خواب میں بادامی باغ پہنچ گیا۔میں نے دیکھا کہ میں اسی ابدال کے پاس کھڑاہوں وہ سواریوں کو پانی پلا رہا ہے ۔میں نے اس سے پانی مانگاتو اس نے بالٹی سے پانی کا ایک گلاس بھر کر مجھے دیااور کہا’’لیجئے جناب میں آپ کے انتظار میں تھا‘‘ میں نے ایک گھونٹ بھر کر باقی پانی زمین پر پھینک دیا اورکہا’’ اس میں تو تنکے موجود ہیں‘‘ ۔اس ابدال نے ایک زور دار تھپڑ میرے منہ پر مارا اور کہا’’میں وہ خربوزوں والا نہیں ہوں ‘‘۔تھپڑ پڑتے ہی میری آنکھ کھل گئی ۔
چھوڑئیے قارئین ۔ خواب تو خواب ہوتے ہیں۔ پیٹ میں گرانی کے سبب لاشعور سے نکل نکل کر شعور میں آتے رہتے ہیں ۔ہاں کچھ سچے خواب بھی ہوتے ہیں مگر ہم گنہگاروں سے سچے خوابوں کاکیا تعلق۔اور ویسے بھی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ٹیکنو کریٹس کی حکومت کی مخالف کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ ’’ٹیکنو کریٹ حکومت مسائل حل نہیں کر سکتی ‘‘۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ نہ تو جمہوری حکومتیں مسائل حل کرسکیں اور نہ ہی مارشل لائوں کے دور میں کوئی بڑی بہتری آئی ہے ۔اب کچھ تو کرنا ہی پڑے گا لوگوں کو بھوک اور افلاس سے بچانے کےلئے پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کےلئے ۔
خواب میں جس جلالی درویش سے میں نےتھپڑ کھایا تھا وہ درویش مجھے پاکستانی عوام کی کوئی علامت محسوس ہورہی ہے ۔جس کا غصہ روز بہ روز بڑھتا جارہا ہے ۔عدالتوں میں ججوں کے خلاف ہنگامے عوام نا پسندیدہ انداز میں دیکھ رہے ہیں ۔گزشتہ روزمسلم لیگی کارکنوں کی کثیر تعداد نے کالے کوٹ بازار سے خریدے تھے ۔سپریم کورٹ کے زیر نگرانی نیب عدالت پر حملہ سپریم کورٹ پر حملہ ہے یعنی نون لیگ نے اپنی تاریخ دہرا دی ہے ۔پھر بیان جاری فرما دیا ہے مسلم لیگ نون عدالتوں کا احترام کرتی ہے ۔لوگوں کو اس بات کاغصہ بھی ہے کہ چلو ملک کے اندر دوچارجاتی امرا اور بنالیتے مگرملک سے باہر اربوں روپے نہ لےکر جاتے ۔غریب عوام کے منہ سے نوالے نہ چھینتے ۔
غربت زدہ عوام کا جلال دیکھ کر میں اکثر سوچنے لگتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب تخت گرائے جائیں اور تاج اچھالے جائیں گے۔ فیض صاحب تو یہ منظر نہیں دیکھ سکے تھے مگر مجھے پورا یقین ہے ’’ہم دیکھیں گے۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے۔۔جو لوحِ ازل میں لکھا ہے۔۔جب ظلم و ستم کے کوہ گراں۔۔روئی کی طرح اُڑ جائیں گے۔۔ہم محکوموں کے پاؤں تلے۔۔یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی اور اہلِ حکم کے سر اوپرجب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی۔جب ارضِ خدا کے کعبے سے۔سب بُت اُٹھوائے جائیں گے۔ہم اہلِ صفا مردودِ حرم ۔مسند پہ بٹھائے جائیں گے۔سب تاج اچھالے جائیں گے۔سب تخت گرائے جائیں گے۔بس نام رہے گا اللہ کاجو غائب بھی ہے حاضر بھی جو ناظر بھی ہے منظر بھی ۔اٹھّے گا انا الحق کا نعرہ۔جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔اور راج کرے گی خلقِ خدا۔جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی چند دن پہلے کسی خونی انقلاب کی دبے لفظوں میں پیشگوئی کی ہے۔

تازہ ترین