• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معیشت بارے ’’بُری نہیں تو اچھی بھی نہیں‘‘کا تبصرہ، اور وہ بھی عسکری، تو دو آتشہ ہونا ہی تھا۔ اس تبصرے نے اُس اشتہار کی یاد دلا دی جس میں ایمپائر اپنا پسندیدہ بسکٹ کھانے میں ہمہ تن مصروف ہے کہ اچانک ’’ہاؤ از اِٹ‘‘ کی زوردار اپیل گونجتی ہے اور بے خبر ایمپائر ففٹی ففٹی کا فیصلہ سنا دیتا ہے۔ یہ تبصرہ ایسے وقت پہ ہوا جب وزیرِ خزانہ کو اپنے ذرائع سے زیادہ جائیداد بنانے کا مقدمہ درپیش ہے اور اُن کی جگہ وزیرِ داخلہ ورلڈ بنک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے سالانہ اجلاس میں تند و تیز سوالات کا جواب دے رہے ہیں۔ احسن اقبال نے تو اس پہ چیخنا اور چلانا ہی تھا اور ایسے مرحلے میں جب 16.2 ارب ڈالرز کے خسارے(Current Account Deficit) کا سامنا ہو اور تقریباً 5 ارب ڈالرز کھاتے سیدھے رکھنے کو درکار ہوں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ معیشت کے موجودہ بحران پر (جو چھوٹے چھوٹے اچھے وقفوں کے بعد مسلسل آتا رہتا ہے) بجاطور پر پریشان نظر آتے ہیں۔ لیکن فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اور آئی ایس پی آر کے اشتراک سے منعقد کردہ سیمینار میں اُن کے اظہاریئے نے وزارتِ خزانہ کے بابوؤں کی ہوائیاں تو اُڑانی ہی تھیں۔ غالباً، قومی سلامتی کمیٹی میں بار بار اس جانب توجہ دلانے کے باوجود جب کچھ اُن کے تئیں بن نہ پایا تو وہ کھلے عام بول پڑے۔ لگتا ہے کہ دیگر میدانوں کی طرح معیشت کے اُتار چڑھاؤ کا ناپ تول بھی اسٹیبلشمنٹ میں کیا جاتا ہے۔ اور ہمارے بہت سے باکمال ماہرینِ معیشت حسبِ ضرورت(Need Basis) بیماری کی تشخیص اور علاج کے بار بار آزمودہ نسخے لئے حاضری کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ کراچی کے سیمینار میں وہی ماہرین مدعو تھے جو مالیاتی دیوالیہ کا ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں۔ یا پھر جنرل اختر عبدالرحمن کے بیٹوں نے جو انسٹیٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز بنا رکھا ہے، اُس کے روحِ رواں سابق وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا دردِ حُبّ الوطنی میں جو بُرے منظر نامے(Worst Case Scenario)پیش کرتے رہتے ہیں جن پر طاقت ور حلقوں میں گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں۔ ڈان اخبار میں میرے دوست شاہد کاردار کے ساتھ لکھے گئے مضمون میں تو پاشا صاحب نے بیرونی کھاتے میں ماہوار خسارہ ایک ارب ڈالر دکھایا ہے اور اُس سے نپٹنے کے لئے اچھی تجاویز بھی دی ہیں۔ لیکن اب وہ اسے 19.7 ارب ڈالرز کی سطح تک بلند کر چکے ہیں۔ جو مزاجِ یار میں آوے!
عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق پاکستان کو اس سال 16.2 ارب ڈالرز کے خسارے کا سامنا ہے، جس کی بڑی وجہ 32.6 ارب ڈالرز کا تجارتی خسارہ ہے۔ صرف چین سے ہمارا اقصادی خسارہ 9 ارب ڈالرز ہے، جس میں ایک بڑا حصہ مشینری کی درآمدات کا ہے۔ لیکن 19 فیصد برآمدات ایسی بھی ہیں جو آدھی کی جا سکتی ہیں، لیکن ہماری اشرافیہ اور مڈل کلاس کی شاہ خرچیاں ہیں کہ ختم ہونے کو نہیں۔ ویسے بھی ہم بطور قوم کماتے کم ہیں اور کھاتے زیادہ ہیں۔ ہماری قومی پیداوار کا 94 فیصد کھپت میں صرف ہو جاتا ہے۔ یہ جو کھانے پینے، آسائش و زیبائش اور چمکتے دمکتے لائف اسٹائل کے سامان کی ہر جگہ بھرمار ہے، اگر یہی ختم کر دی جائے تو تقریباً 5 ارب ڈالرز زرِ مبادلہ بچ سکتا ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ایسی 250 اشیا پہ ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں جن کی خاص ضرورت نہیں۔ اور ساتھ ہی برآمدات کے پیکیج پر عمل درآمد تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گو کہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی نمو 5 سے چھ فیصد کے درمیان ہونے کی توقع ہے اور جو دس برس میں سب سے زیادہ ہے۔ بجٹ یا مالی خسارہ بھی اتنا ہی ہوا چاہتا ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے کی شرح 12.5 فیصد سے زیادہ نہیں اور نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا اُلٹا نقصان یہ ہوا ہے کہ تاجر لوگ نقدی پہ کاروبار کی جانب زیادہ مائل ہو گئے ہیں۔ تاجروں اور زمینداروں کی حکمرانی میں اُنھیں کون ٹیکس کے شکنجے میں لائے؟ ترقی پذیر ممالک میں ہماری شرح بچت، شرح سرمایہ کاری اور شرح ٹیکس انتہائی نچلی سطح پہ ہیں جبکہ دُنیا بھر سے لڑنے کی ہماری حمیت آسمان پر ہے۔ سیاسی مناظرے اور ٹیلی ویژن مباحث میں اگر کچھ غائب ہے تو وہ معیشت ہے اور اس پر کیے جانے والے بے تُکے تبصرے اور جاہلانہ اصرار۔ لے دے کہ اگر کوئی نشوونما کا دور تھا بھی تو بیرونی وجوہات کی بنا پر جیسے کوریا کی جنگ کے بعد ایوب خان کا ابتدائی دور جو بعد ازاں ہارورڈ اسکول کے نظریہ تفریق کے ہاتھوں پٹ گیا یا پھر شوکت عزیز کی بنکوں کے ذریعے کی گئی فنانسنگ کی چکاچوند اور حقیقی معیشت کی قیمت پر جو چار دن کی چاندنی اور پھر وزیراعظم گیلانی کی اندھیری رات میں بدل گئی۔ ترقی کے چھلاوے تو عارضی دکھاوے کے تھے۔ پھر دست نگر معیشت تھی اور کشکول کی کشادگی۔ سبھی طرح کی سیاسی، فوجی، ٹیکنوکریٹک حکومتوں کا بس ایک فارمولہ رہا: قرض لو اور کھپت کا پیٹ بھرو اور برآمدات کو اُن کا بوجھ ہلکا کرنے (Subsidise)کے لئے استعمال کرو۔ کسی نے معیشت کا پیداواری ڈھانچہ بدلنے کی کوشش نہیں کی اور قومی ذرائع اور عوام کی محنت کی کمائی کو غیرپیداواری خرچوں کے لئے استعمال کیا۔ عالمی کساد بازاری اور برآمداتی مقابلے میں جس طرح کا ہمارا سادہ برآمداتی ڈھانچہ ہے، اُس میں کوئی کیا خاک کمائی ہونی ہے۔ اوپر سے وزیرِ خزانہ کو روپے کی بڑھی ہوئی قیمت کو برقرار رکھنے کا جانے کیا شوق ہے۔ جب یہ گرا اور حقیقی شرحِ مبادلہ پہ آیا تو دیکھیے کیسے اسٹاک مارکیٹ سے 7 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری اُڑان بھرتی ہے۔ خود انحصاری کے نعرے اور کشکول توڑنے کے دعوے سُن سُن کر کان پک گئے ہیں۔ کسی کے پاس کیا نسخہ ہے، ہمیں بھی بتائے۔ اصل بحران کی طرف کوئی نہیں آتا۔ وہ نہ صرف حقیقی پیداواری معیشت (زراعت و صنعت) کا بحران ہے بلکہ اس سے بڑھ کر سیاسی معیشت کا مسئلہ ہے۔ جس طرح کے کھاؤ پیو ہمارے استحصالی طبقے ہیں،اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی کے اللّے تللّے ہیں، اُس میں کسی کو کیوں ایک پائیدار اور شراکتی ترقی کی راہ سوجھے گی؟
جنرل باجوہ نے ہمیں اپنے سلامتی اور معیشت کے باہمی تعلق و اثرپذیری کے نظریے سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اُن کا سلامتی کا تصور کٹر فوجی نہیں اور وہ سماجی، انسانی، معاشی اور ماحولیاتی سلامتی کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن کچھ باتیں وضاحت طلب ہیں۔ سوویت یونین اس لئے ختم ہوا کہ معیشت بھاری بھر کم فوجی سلامتی کا بوجھ نہ اُٹھا سکی۔ اور سرد معاشی منطق ابھی بھی سب سے اہم ہے، جبکہ نسلیاتی، مذہبی، قوم پرستانہ اور شناختوں کے جھگڑے سیاسی ہیں اور انہیں حل کرنے کےفوجی طریقے ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔ پاکستان کی دست نگر معیشت اور نحیف معاشی بنیاد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال اُٹھانا سبھی بھول جاتے ہیں کہ یہ سلامتی کا کتنا بوجھ اُٹھا سکتی ہے اور یہ یقیناًففٹی ففٹی نہیں ہے۔ کاش کراچی کے سیمینار میں کوئی یہ بھی پوچھتا کہ حضور آپ کی سلامتی کی بڑھتی ہوئی ضرورتیں اپنی جگہ لیکن یہ بھی دیکھ لیں کہ پاکستان اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 3.6 فیصد دفاع پہ خرچ کرتا ہے، جبکہ امریکہ 3.5 فیصد، چین 2.1 فیصد اور بھارت 2.5 فیصد سلامتی کی نذر کرتا ہے۔
وفاقی حکومت کے پاس جو نقد محاصل ہیں وہ فقط دو مدوں یعنی قرض کی ادائیگی اور دفاع پہ خرچ ہو جاتے ہیں اور تمام ترقیاتی بجٹ اُدھار پہ تیار ہوتا ہے اور یہ تقریباً دفاع پہ اُٹھنے والے اخراجات (920 ارب روپے جس میں 180 ارب کی پنشن شامل نہیں) سے کم ہے۔جنرل باجوہ نے عوام کی ضرورتوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ کاش اس کے لئے بھی کچھ بچ پاتا اور ہماری نسلیں یوں بھوک، جہالت اور افلاس کے ہاتھوں تباہ نہ ہوتیں۔ جنرل باجوہ کا یہ کہنا کہ پورے خطے کا مفاد باہمی تعاون اور امن میں ہے، ایک بہت ہی دُور رس بیان ہے۔ کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ فوجی یا علاقائی محاذ آرائی میں سب کا نقصان ہے۔ لہٰذا اپنے اپنے گھوڑوں کو لگام دی جائے۔ اس طرح کے معاملات کون روکنے والا ہے۔ ’’بُری نہیں اور اچھی بھی نہیں‘‘، میں کیا بُرا ہے اور کیا اچھا، اس کا فیصلہ کون کرے؟

تازہ ترین