• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاستدانوں اور اداروں کی جنگ سے بدظن میں نے سوچا پرانے گانوں سے جی بہلایا جائے۔ سنتے سنتے نوورنگ کا گانا سامنے آگیا
آدھا ہے چندر ما رات آدھی
رہ نہ جائے تیری میری بات آدھی
اوردل کے جلترنگ بجاگیا، کیا مختلف انداز کی فلم تھی ’’نوورنگ‘‘ ایسے ہی جیسے وی شانتارام کی فلمیں کچھ الگ ہی سے ہوتی تھیں۔ ان کی ایک اور فلم’’دو آنکھیں بارہ ہاتھ‘‘ بھی تھی۔ ایسی یادگار فلم اور ایسا شاندار سبجیکٹ ۔ یہ وہی فلم تھی جس کے بنانے میں آخری سین کے دوران وی شانتارام شدید زخمی ہوئے۔ ایسے زخمی کہ ہمیشہ کے لئے ان کی بینائی چلی گئی۔ آج جب میں لاہور کی فلمی صنعت کے بونوں کے بیانات پڑھتا ہوں کہ وہ جلد فلم انڈسٹری میں انقلاب لے آئیں گے تو ہنسی آتی ہے۔ ان لوگوں کو شاید وی شانتارام کا نام بھی نہیں معلوم ہوگا۔ ایسے ہی جیسے یہ لوگ سیتہ جیت رے اور ان کے پیدا کئے انسٹی ٹیوشن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اگر جانتے ہوتے تو ہماری فلم انڈسٹری کا یہ حال نہ ہوتا۔ فلم جب ادب اور آرٹ کے سائے سے محروم ہوتی ہے تو اس کا حال یتیموں جیسا ہوجاتا ہے۔ اسی سے مجھے حسن عسکری صاحب کی ایک بات یاد آئی۔ میں بطور فلم ساز ان سے بالکل متاثر نہیں ہوں لیکن ان کی ایک بات بہت یادگار ہے۔ ایک بار ان سے فلم ٹائی ٹینک کا ذکر ہورہا تھا، فرمانے لگے کہ بھائی اصل بات یہ ہے کہ ٹائی ٹینک وہی بناسکتا ہے جس نے ٹائی ٹینک شپ بنایا تھا۔ سوشاید ان کی مراد امریکہ اور یورپ میں ہونے والی سائنسی تبدیلیوں اور محیرالعقول کارناموں سے تھا جس سے آنے والی دنیا میں ہمیں کیا کیا دیکھنے کو ملے گا۔مثلاً چوہوں پر ہونے والی ایک ریسرچ میں ایک بہت فلیکس ایبل میٹریل سے ریڑھ کی ہڈی کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ اس کے بعد یہ ممکن ہوسکے گا کہ انسانوں میں بھی ایسے میٹریل سے ریڑھ کی ہڈی بنائی جاسکے۔ اس سے پہلے انسانی جین سے تیار کردہ اسیٹم سیل سے بھی انسان کی بہت سی بیماریوں کے تدارک کے سلسلے میں کافی کام ہوچکا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کی بہتر زندگی کے لئے ایسے کارنامے کرنے والے کو کیا کہیں؟ کیا مسلمانوں کے لئے کرنے کا اصل کام یہ نہیں؟ اس سے آگے بڑھیں تو معلوم ہوتا ہے۔
چین کے شہر بیجنگ میں ریل گاڑیوں میں سفر کرنے والے مسافروں کو مفت الیکٹرانک لائبریری کی سہولت دی گئی ہے تاکہ مسافر دوران سفر وقت گزارنے کے لئے کتب کا مطالعہ کرسکیں۔ دس کتابوں کو الیکٹرانک انداز میں محفوظ کرکے فراہم کیا گیا ہے اور ان کتابوں کی تعداد میں اضافہ کیا جاتا رہے گا۔
جرمنی میں سائنسدانوں نے ایک عجیب تصور پیش کیا کہ جس کو انہوں نے حقیقت میں تبدیل کردیا ہے۔ اب جوتوں سے چلنے سے بھی بجلی حاصل کی جاسکے گی۔ یہ آلہ اس وقت چارج ہونا شروع ہوجاتا ہے جب انسانی ایڑی زمین پر چلنا شروع ہوتی ہے اور جب پائوں اوپر اٹھے گا تو اس وقت بھی ہوا کے دبائو کو استعمال کرکے اس آلے کی چارجنگ ہوسکے گی۔
ایک اور حیرت انگیز کارنامہ گلاسگو کے سائنسدانوں نے سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے بالآخر ایک ایسا کامیاب تجربہ کرلیا ہے کہ جس کی بدولت روشنی کی رفتار کو اصل رفتار سے کم کیا جاسکتا ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ روشنی کی شیشے یا پانی میں سے گزرتے وقت کم رفتار ہوجاتی ہے لیکن اب عام فضا میں بھی ایسا ممکن ہوسکے گا۔ اسی طرح ایک اور تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک نئے اور مزید جدید ٹیسٹ کے ذریعے دل کے دورے کے امکان کو دو گنا بہتر طور پر جانا جاسکتا ہے۔ اس ٹیسٹ کو دل کے دورے کی مزید باریکیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا اور اس سے دل کے دورے کو جانچنے میں دو گنا مدد ملی۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں وگرنا آج کل سائنسی جریدے اٹھا کر دیکھیں تو ایسے ایسے کارنامے نظر آتے ہیں کہ دل سے ایسی ایجادات کرنے والوں کے لئے دعا نکلتی ہے۔
افسوس یہ کہ ایسے کارنامے کرنے والوں میں مسلمانوں کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا یہ کوئی سازش ہے؟ کیا اس وقت مسلمان مفتیوں اور فقہا کو اس طرف توجہ نہیں دینی چاہئے؟ کیا انہیں مسلمانوں کو یہ نہیں بتانا چاہئے کہ اصل جہاد علمی جہاد ہے، اگرمسلمان اس میدان میں پیچھے رہ گئے تو کسی بھی میدان میں ترقی نہیں کرپائیں گے۔ نواز شریف صاحب اور ان کی بہتر حکمرانی کا تذکرہ کرنے والوں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے ۔
اگر بہتر انسانی ذہن آگے نہیں آئیں گے تو نہ معاشرے میں بہتری آئے گی نہ کچھ اور بہتری ہوپائے گی۔ میٹرو بسوں اور اس طرح کے دوسرے پروجیکٹس ایسے ماحول میں جہاں اداروں کی شکل میں جہالت کے گڑھ پیدا ہورہے ہوں ان سے آخر کیا بہتری آسکتی ہے؟ تذکرے اس بات کے ہونے چاہئیں کہ ہم نے کیا ایجاد کیا؟ ہم نے کتنے سائنسدان پیدا کئے؟ یہ بھی کہ میرے شہر میں کتنے باغات ہیں؟ کتنے درخت،کتنے پرندے اور کتنی لائبریریاں، وگرنا ہم یہی کہتے رہ جائیں گے کہ
یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محو نالہ جرس کارواں رہے

تازہ ترین