• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدل کی دستیابی عدل کے تقدس سے مربوط
جہاں عدل نہیں وہاں دجل (باہمی لڑائی) ہے، جہاں عدل ہے وہاں سب اچھا ہے، عدالتوں کا احترام ہوتا تو جمعہ کے روز جج صاحبان اٹھ کر چلے نہ جاتے، ہلڑ بازی جس جانب سے بھی ہوئی عدالت کو کام نہیں کرنے دیا، اور ہم سمجھتے ہیں یہ کار عدل میں مداخلت کی بدترین مثال ہے بلکہ دراصل کارِ سرکار میں مداخلت اور بگاڑ پیدا کرنے کی بدترین موثر کوشش اور عدل و انصاف کے عمل کو روکنا ہے، انصاف کی نظر میں کوئی عام خاص اور کوئی مستثنیٰ نہیں ہوتا، یہ درجہ تو خلفاء راشدین کو نہیں دیا گیا پھر ہم جیسے گناہ گاروں کو کیونکر حاصل ہو سکتا ہے، ’’شریح‘‘ اسلامی تاریخ کا نو عمر ترین جج تھا جس نے امیر المومنین حضرت علیؓ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا، کیا ہم اپنی تاریخ کو مسخ کر کے اس جہان یا اُس جہان میں عدل پا سکیں گے، کیا ہمیں معافی مل سکے گی؟ یہ معاملہ کوئی جانبدارانہ نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کو انصاف ملنے کا معاملہ ہے، ہم کیوں جمہوریت میں شہزادے شہزادیاں پیدا کر کے اپنی جمہوری اقدار کی مٹی پلید کرنے کے درپے ہیں، ہم فریقین کو اس لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر حاصل کردہ وطن کا واسطہ دیتے ہیں کہ عدالتوں کو میلہ ٹھیلہ نہ بنائیں، عدالت نے جن کو طلب کیا ہو وہی جائیں، سیاسی لیڈران اپنے غلاموں کی فوج کو کیوں نہیں روکتے کہ ان کے عدالتوں میں مجمع بازی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ذی شعور ووٹرز دیکھ رہے ہیں کہ ان کی رائے کا مستحق کون ہے؟ یہ شرمناک وقوعہ تھا جسے رونما نہیں ہونا چاہئے تھا، نیب کے سربراہ کو احتساب عدالت میں اچھا ماحول پیدا کرنے کے لئے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد قانون کے زور پر کرانا ہو گا ورنہ یہ عدالت مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتی رہے گی، اور انصاف مانگنے والے ہی انصاف میں تاخیر پیدا کرتے رہیں گے۔
٭٭٭٭
’’ویری‘‘ امپارٹنٹ پرسنز
پہلے بہت اہم بن جائیں بعد میں بندہ بنیں نہ بنیں اس کی پروا نہیں، یہ ہے وہ طریق کار جس سے گزر کر کوئی وی آئی پی، ویری بنتا ہے، مگر ہماری عادت ہے کہ دوست کو دھکے اور دشمن کو عزت دیتے ہیں، اگر سیاست حکومت خدمت ہے عبادت ہے تو پھر خود کو وی آئی پی کہلوا کر خوش ہونا کیا نا اہلی نہیں؟ ساری دنیا گھوم آئیں آپ کو بھوٹان میں بھی وی آئی پی کلچر نظر نہیں آئے گا، مگر ایک یہ خاندان غلاماں قوم ہے کہ جو اس لعنت کو اٹھائے اپنے وی آئی پیز کے لئے سڑکیں خالی چھوڑ دیتے ہیں، کیا کوئی وی آئی پی کی اصطلاح کو آئین قانون سے ثابت کر سکتا ہے۔ کیا کوئی آزاد خود دار و خود مختار قوم وی آئی پیز پال سکتی ہے؟ ہماری موجودہ سے لے کر آئندہ کی حکومتوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس قوم کو آزاد قوم کا درجہ دیں اور اپنے کسی اہم منصب کو از خود وی آئی پی قرار نہ دیں، مزا تو یہ ہے کہ لوگ انہیں وی آئی پی سمجھیں، ٹریفک روک کر، عوام کو اذیت دے کر اگر کوئی وی آئی پی بنتا ہے تو ایسی اہمیت پر تو دو حرف بھیجنے چاہئیں، سیکورٹی کا ایک بڑا بہانہ بنایا جاتا ہے مگر سیکورٹی کا مسئلہ تو عام آدمی کا ہے، کہ وہ اللہ کی آس پر موت بیچنے والوں بانٹنے والوں سے محفوظ ہیں، ہر قسم کے سرکاری محافظ تو صرف ان وی آئی پیز کی حفاظت پر مامور ہیں، کیسی عجیب بات ہے کہ خادم، مخدوم ہیں اور مخدوم، خادم پاکستان ایک آزاد ملک ہے مگر اس کی روح پابند اور زمین قبضہ مافیاز کے تصرف میں، کیا اس کو آزادی کہتے ہیں؟ جگہ جگہ ہجوم لگے رہتے ہیں، کہیں کوئی ایمبولینس میں اپنی سانسیں گن رہا ہے، کہیں عوام جنہوں نے یہ وی آئی پیز ایجاد کئے ہیں خوار ہیں، پتا چلتا ہے کہ اس علاقے میں وی آئی پی موومنٹ ہے، اس لئے کوئی اور موومنٹ نہیں کر سکتا۔
٭٭٭٭
یہ عالم گالم گلوچ کا دیکھا نہ جائے!
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے:اسلام آباد جائیں گے، حکومت جاتی ہے جائے، نواز، زرداری، فضل الرحمٰن، اسفند یار، اچکزئی بڑے ڈاکو۔ اگر کسی چور کو بھی بار بار کہیں گے کہ تو سب سے بڑا چور ہے تو وہ چوری ترک نہیں کرے گا بلکہ اپنے کام میں اور تیز ہو جائے گا، خان صاحب نے اپنے دہن شریف کو زمزمہ توپ بنا ڈالا ہے، جہاں سے وقفے وقفے سے گولہ باری ہوتی ہے، حکومت کے جانے، اور تقریباً نصف درجن سیاسی رہنمائوں کو ایک ہی سانس میں ڈاکو قرار دے دیا، کیا دنیا میں پنپنے کے یہی طور طریقے ہیں؟ اس قوم سے کسی کو عشق نہیں محبت کرسی سے ہے، یہی وجہ ہے کہ ان میں سے جو اس پر براجمان ہوتا ہے اس کی کرسی کی ٹانگیں دیگر طالع آزما کھینچتے رہتے ہیں، سیاسی کارکن ہوں یا عوام سب مسجد کی آڑ میں اپنا محل کھڑا کرنے والوں نے بیوقوف بنا رکھا ہے، اور ان سے اپنے لئے غلط کام لے رہے ہیں، یہ مانتے ہوئے کہ لوٹ مار کرپشن اور وطن فروشی کا بازار گرم ہے پھر کیوں ان عطائی سیاستدانوں ہیچمدانوں کے پیچھے لگ کر ماریں کھاتے ہیں، کیا اسی کو سیاسی کارکن ہونا کہتےہیں؟ جب ان کے زور پر کرسی مل جاتی ہے تو پھر ان کا فون کوئی نہیں اٹھاتا، مگر شاید ڈسوانے کی عادت پڑ چکی ہے۔ عمران خان اگر تحمل بردباری اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے تو ان کی سیاسی ساکھ آسمان کو چھو رہی ہوتی، خیبر پختونخوا کی احتساب عدالت ویران پڑی ہے کیا وہ کسی دیانتدار کو تعینات نہیں کر سکتے، پہلے والے نے اس لئے کرسی چھوڑ دی کہ اس کا ہاتھ ان تک پہنچ گیا تھا، انصاف دوسروں کے لئے اپنے لئے من مانی یہ کیا دوعملی ہے؟ ان کے گرد جن لوگوں کا ہالہ ہے اس نے عمران کی سیاست کو گہنا دیا ہے ، اور اب تو وہ جن کے حسین اخلاق کے چرچے تھے انہوں نے عمرانی انداز سیاست و خطابت اختیار کر لیا ہے خداوندا ترے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں؟
٭٭٭٭
زرداری اِن لاہور
....Oآصف زرداری لاہور پہنچ گئے،
کیا کرنے؟
....Oمشرف:پاکستان سری لنکا کا کرکٹ میچ دیکھا،
بس یہیں تک رہیں،
....Oوزیر قانون زاہد حامد:عمرہ کے لئے سعودیہ چلے گئے،
یہی تو وقت ہے عمرہ ادا کرنے کا، ہم وزیر موصوف کی ٹائمنگ کو سلام کرتے ہیں،
....Oاسٹیج ڈراموں میں پولیس کی تضحیک:کسی کو رُلا کر ہنسانا مزاح نہیں۔
....Oلوگ اگر چند روز خبروں سے بے خبر رہیں گےتو یہ ان کی صحت کے لئے بہتر ہو گا، مگر ایسا ممکن نہیں کیونکہ اب ہمیں باخبر رہنے کی عادت پڑ گئی ہے، اس سے امکان ہے کہ لوگ سوچ سمجھ کر ووٹ دیں گے۔

تازہ ترین