• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محدود ذہن نااہل اور خود غرض حکمرانوں کی حکومتیں ہمیشہ اقوام کو بہت مہنگی پڑتی ہیں۔ خاتمے کے بعد ان کے کئے کا مداوا محال ہو جاتا ہے۔ آمریت ہو، ملاوٹ شدہ جمہوریت یا بادشاہت، درباری،ہر سطح اور درجے کے حواری اور خوشامدی ایسی حکومتوں کو قائم دائم رکھتے ہوئے جیسے تیسے چلانے کا بڑا سامان ہوتے ہیں۔ ان ہی درباریوں اور خوشامدیوں کی آہ آہ، واہ واہ اور سب اچھا ہے کی گردان سے جواز حکمرانی مہیا ہوتا رہتا ہے۔ یہ ریاستی نظام اور حکمرانی کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اس گمراہی پر چلتے رہنے سے خالی خولی حکمرانوں کو جو تسکین ملتی ہے وہ حکمرانوں کو اس راہِ بد پر لگائے گئے خوابوں کو حاصل جائز و ناجائز آسودگی سے مل کر یوں گڈ مڈ ہو جاتی ہے کہ یہ ملکی و عوامی ضروریات و مفادات کی مخالف حکومتوں کے ’’استحکام‘‘ کا ایک بڑا فیصد بن جاتا ہے یہ ہیCountry, Conspiracy of Gossip بن جاتی ہے۔ (مشترکہ ناجائز مفاد کے لئے گٹھ جوڑ) اس سے آگے پھر درباریوں اور حواریوں کے درباری اور خوشامدیوں اور آگے ان کے بھی ایک نظام بد قائم ہو جاتا ہے۔ جو پاکستان جیسی آئینی اسلامی جمہوریہ پر بھی موجود مسلط نظام (اسٹیٹس کو) کی شکل میں دائرہ در دائرہ موجود سماجی پسماندگی کی معاونت حاصل کرتا مگر مچھ جتنا طاقت ور ہو جاتا ہے اس کا شاخسانہ پھر وطن عزیز جیسی جاری 9سالہ بدترین حکمرانی، قومی معیشت کی تباہی، شاہوں، درباریوں اور حواریوں کو حصہ بقدر جثہ چار چمک دمک، مہنگائی، کھلی کرپشن، نااہل اسمبلی اور مسلط شاہی، جمہوری خاندان اسی نظام بد کی اینڈ پروڈکٹس(آخری شاخسانے) ہیں۔ ایسا ’’مزے کا نظام‘‘، جس میں مرضی کی جمہوریت اور ضرورت برابر آئین قانون کے نفاذ کی کھلی چھوٹ ہو، اسمبلیاں مطلب کی کالی قانون سازی کے لئے موم کی ناک ہوں، قائم کرنے کی بڑی ضرورت اوپر کی سطح پر ریاستی اور عوامی خدمات کے ہر سطح کے اداروں کو عطائیوں کے حوالے کرنا ہوتا ہے جو ریاستی اور پبلک سروسز کے اداروں کا اصل کردار ختم کرکے انہیں تباہ کرنے کی تباہ کن اہلیت رکھتے ہوں۔ جیسے دال دانے کے کسی بھرے گودام میں گھات لگا کر اندر داخل ہونے والے چوہے خود تو دنوں میںبلیوں اور خرگوش کے حجم کے ہونے لگتے ہیں ۔ذخیرہ گودام خالی کردیتے ہیں جو بچتا ہے اتنا گدلا ہوتا ہے کہ خوراک سے بیماری میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ گودام سے باہر یہ بیانیہ لوگوں کو تسلی دلانے میں تواتر سے جاری رہتا ہے کہ خوراک کی کوئی کمی نہیں۔
یہ کچھ ترقی پذیر جمہوریتوں اور آمریتوں میں عام ہے۔ افریقہ میں نائیجریا، روانڈا، زمبابوے اور صومالیہ اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ میرے منہ میں خاک، اب پوری ترقی پذیر دنیا میں اس کی سب سے بڑی اور کلاسیکل مثال اسلامی جمہوریہ سے کوسوں دور ہماری فقط آئینی اسلامی جمہوریہ ہے جس کے مطابق پاکستان ایک جدید اسلامی، فلاحی جمہوری ریاست ہے، جس کے وفاقی اقتدار کی تین اور سب سے بڑے صوبے کی پانچ باریاں لینے والے خاندان کا بچہ بچہ نیب زدہ ہے۔ سمدھی اور داماد بھی۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ایسی دیدہ دلیر حکومتوں کے فنون ہائے حکمرانی کا ایک بڑا فن ریاستی اور عوامی خدمات کے اداروں پر عطائیت کا غلبہ ہوتا ہے جو یقیناً تقاضا کرتا ہے کہ ہر ادارے کے لئے ایک عطائی درکار ہو جس کی فوج ایسے حکمرانوں کے پاس ہر وقت موجود اور اپنی عطائیت کے مظاہرے کے لئے بے چینی سے منتظر ہوتی یا یہ عوام دشمن کردار نبھانے میں جتی ہوتی ہے۔ پاکستان کے اسٹیٹس کو میں کامیاب ترین عطائی اپنے گلے میں منی لانڈرنگ اور بھاری مشکوک دولت کی فرد جرم کا طوق گلے میںلٹکائے ہر ن لیگی دور میں مارِسر گنج (خزانے پر بیٹھا کوبرا) کی مانند وزیر خزانہ داتا دربار کمیٹی کے سرگرم رکن اور اب دبئی اقامے والے جناب اسحاق ڈار ہیں، جنہوں نے ذاتی اثاثے بڑھانے کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ وہ قومی خزانہ کے ساتھ جو کچھ کر رہے تھے اور جس جعلی طریقوں سے اسے مینج کرکے قوم کو شعبدے بازی سے تسلیاں دی جارہی تھیں، اس کی بروقت نشاندہی ملک کے چوٹی کے ماہرین اقتصادیات اپنی تشویش کے ساتھ انتہائی اندازہ میں کرتے جا رہے تھے۔ آج سب کچھ کھل کر سامنے آ رہا ہے، اپوزیشن والے بھی روایتی تنقیدی انداز میں ڈالروں کے دلدادہ ڈار صاحب پر انگلیاں تو اٹھاتے رہے، لیکن پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کو یہ توفیق کیوں نہ ہوئی کہ آئی پی پیز کو 130ارب ڈالر کی جو ادائیگیاں آڈٹ جنرل آف پاکستان کے اعتراض کے باوجود کی گئیں۔ وہ کیسے کر دی گئیں؟ اس کی کتنی گنجائش بنتی تھی ؟ یہ جو ٹیکس گزار عوام الناس کی پینے کے قابل پانی کی دستیابی، غریب آبادیوں میں صحت و صفائی کے انتظامات ، نکاسی آب، اسٹریٹ لائٹس اور سب سے بڑھ کر ضلعی اسپتالوں اور اجڑے نظام تعلیم اور پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کی تشویشناک عدم موجودگی کے مقابل چائلڈ لیبر کے خطرناک حد تک حجم کے مقابل بڑے بڑے شہروں میں سینکڑوں اربوں کے میٹرو بس، اورنج ٹرین جیسے مشکوک اور متنازع ترین ’’ترقیاتی منصوبے‘‘ عوامی مطالبے، خواہش اور ضرورت سے بالا بالا کوئی فرد واحد (کتنا ہی بااختیار ہو) اسمبلیوں میں زیر بحث اور عوامی نمائندوں، بیورو اور ٹیکنو کریٹس کی وسیع البنیاد کمیٹیوں کی منظوری اور جائزے کے بغیر خود ہی منظور کر کے آناً فاناً عملدرآمد کرکے ان پر قانوناً عملدرآمد کر سکتا ہے؟ یہ سوالات اسمبلیوں میں اٹھانا بنتا تھا یا نہیں؟ تیس اکتیس اہل اراکین اسمبلی تو خیر اسمبلی فورم پر کرپٹ حکمرانوں اور اسمبلیوں کی کٹھ پتلی اور عوام دشمن حیثیت کو مکمل بے نقاب کرنے کیلئے ایک پوری فوج ہے بشرطیکہ ہر ممبر اسمبلی منتخب نمائندگی کے کم از کم اوسط تقاضے بھی پورے کرے۔ اس کے بعد آئندہ الیکشن میں ان سے 30سے 60اور اکثریت تک جانے کے بھی امکانات میں اضافہ نہ ہوتا، لیکن آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ آئین میں عقیدہ ختم نبوتؐ کے تحفظ کے متعلق قانون میں جس طرح تحریف کی جسارت کی گئی پھر پارٹی قیادت کی نااہلیت کو اہلیت میں جس طرح تبدیل کر کے کالی قانون سازی کی گئی اس نے وزیراعظم کے بعد اسمبلی کے بھی یکسر نا اہل (بشمول پی ٹی آئی ۔ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی) ہونے پر مہر ثبت کر دی۔
آج پورے ملک میں قومی معیشت کی تباہی کا جو ماتم ریاستی اور عوامی خدمت کے ادارے عطائیوں، درباریوں اور خوشامدیوں کے حوالے کرنے کے بعد کیا جا رہا ہے۔ جس میں مضبوط ترین ملکی ادارہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ اس کے پس پردہ عوامی عدالتوں والی جمہوری حکومت کی قومی معیشت کی جانب بے دردی اور دھماچوکڑی کا اندازہ اس امر سے لگا لیں کہ نااہل قائد کے نامزد وزیراعظم کی کابینہ 98وزراء، وزراء مملکت ، مشیروں اور معاونین خصوصی پر مشتمل ہے۔ اتنے سفید ہاتھیوں کا بوجھ کبھی کسی وزارت عظمیٰ میں پہلے کبھی دیکھا ہے ؟ وہ بھی تب جب قومی معیشت زمین سے لگی ہے اور وزارتوں کی کارکردگی نااہل ہونے والے اصلی اور وڈے وزیراعظم کے ہوتے بھی مایوس کن تھی۔ اتنے کمزور اور غیر یقینی کے مارے بچارے وزیراعظم کے ساتھ اتنی بھاری اور اللے تللوں پر مشتمل کابینہ کا آخر کیا معنی ؟ جو فقط شوں شوں کرتی گاڑیوں گارڈوں کے جلوس میں شریف خاندان کے نیب زدہ ملزمان کی پیشیاں بھگتانے یا عدالتی کارروائی میں رکاوٹیں ڈالنے پر لگی ہوئی۔ اب قومی معیشت سنبھالنی ہے تو ان 200بلین ڈالر کی بات کرو جن کی نشاندہی خود سوئس حکومتی ذرائع سے ہو چکی ہے کہ یہ کیسے لانے ہیں اور یہ جو سفید ہاتھیوں کی کابینہ والے سہمے سہمے وزیراعظم نے کہا ہے کہ جمہوریت کے بغیر ترقی ممکن نہ غیر جمہوری یا ٹیکنوکریٹ حکومت مسائل حل کر سکتی ہے۔ بات تو ٹھیک ہی ہے لیکن ریاستی اداروں پر عطائیوں اور درباریوں کو مسلط کر کے جمہوریت کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اس سے پاناما برانڈ جمہوریت ہی نکلتی ہے اور ٹیکنو کریٹس سے خوف کھاتے انہیں ترقیاتی عمل میں شامل کئے بغیر مطلوب ترقی خود اور عوام کو دھوکے کے مترادف ہے۔ یہ اب سب ثابت شدہ ہے۔

تازہ ترین