• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وائسرائے ہند لارڈکرزن نے کہا تھا ’’جس کسی نے ہندوستان کی تاریخ کا ایک بھی صفحہ پڑھا ہو گا وہ پختون خطے کے مستقبل کےبارے میں پیش گوئی سے گریز کرے گا‘‘ اس رائے کا اظہار انہوں نے 20 جولائی 1904 کو اُس وقت کیا جب وہ وائسرائے کے منصب کے اختتام کے قریب پہنچ گئے تھے۔ معروف مستشرق جیمز ڈبلیو سین اپنی تحقیقی کتابThe Pathan Border Landکا اختتام اگرچہ لارڈکرز ن کے مذکورہ تاریخی قول پر کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنا نوٹ یوں ثبت کرتے ہیں ’’رومانوی تاریخ کے حامل پختونوں کی حیران کن توانائیاں اورصلاحیتیں جو تعلیم اور اقتصادی ترقی سے اگر شستہ ووسیع ہو جائیں‘‘ یعنی جدید تعلیم کے ساتھ اقتصادی ترقی ہی اس خطے کی غیریقینی کا علاج ہے۔ کتاب کا موضوع ڈیورنڈ لائن کے اطراف افغانستان اور پا کستان کے موجودہ علاقے ہیں، وقت کا نوحہ مگر یہ ہے کہ 113برس بعد بھی لارڈ کرزن کے صدا کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔اور خطے کے باشندے تعلیم واقتصادی ترقی کی جانب ایک گام بھی نہیں اٹھا سکے ہیں۔ بلکہ یہ پورا خطہ ترقی معکوس کا شکار ہے۔ تقابلی طور پر پاکستان کے پختون علاقے تعلیم وترقی میں آگے ہیں لیکن پاکستان نے بھی اس طرح ترقی نہیں کی جس طرح خطے کے دیگر ممالک کا ریکارڈ ہے۔ہاں مضبوط ریاستی ڈھانچے، مستقل نظام مملکت اور پائیدار اداروں کے باعث پاکستان اقوام عالم کے مستحکم ممالک کی صف اول میں ہے۔لیکن دوسری طرف افغانستان کا معاملہ انتہائی دگرگوں ہے۔ افغان اپنے اکثر امراض کا سبب پاکستان کو گردانتے ہیں اور وہ اس کیلئے نام نہاد افغان جہاد کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ 1975 میں بھٹو مرحوم کی جانب سے جنرل نصیراللہ بابر کے توسط سے تخریبی عناصر، جیسا کہ گلبدین حکمت یار، برہان الدین، عبدالرسول سیاف ودیگر کو پشاور میں لا بسا نےکے منصوبے کو اس کشا کش کا نقطہ آغاز بتاتے ہیں۔
یہ تاثر بھی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں بعض ایسے سنجیدہ معاملات بھی ہیں جن کا ذکر نہیں کیا جا تا لیکن وہ عدم اعتماد کی اصل جڑ ہیں۔ تاہم یہ امر خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ اس سلسلے میں افغانستان کے پاس کوئی بھی قابل عمل روڈ میپ موجود نہیں۔ برسر زمین حقائق اُس کی ایسی بزعمِ خود ہر سنجیدگی کا مذاق اُڑانے کیلئے کافی تر ہیں۔ مرحوم ومغفور خان عبدالولی خان اپنی تصنیف’ باچا خان اور خدائی خدمت گاری‘ میں لکھتے ہیں کہ افغان بادشاہ ظاہر شاہ، صدر اعظم ہاشم خان میوندوال تک اس سلسلے میں کوئی قابل عمل مؤقف نہیں رکھتے تھے۔ افغان وزارت خارجہ کے اہم مہرے دروان فر ہادی سے اپنے مکالمے میں ولی خان صاحب بتاتے ہیں کہ وہ زوروشور سے جن معاملات کو اچھالتے تھے ان کے حوالے سے کوئی واضح اور قابل عمل نظریہ ان کے پاس نہیں تھا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک طرف جنرل حمید گل کے ڈاکٹرائن کے باعث ان کے ’ پیروان‘ کو خود ساختہ انجانا خوف لاحق ہے تو دوسری طرف حقائق سے منہ چھپائےافغانستان کی تخیلات کی دنیا ہے۔
ایک طالب علم کے طور پر راقم اس فکر سے ہم آہنگ ہے کہ خطے بالخصوص افغانستان کی تباہی وبربادی کی اصل جڑ اس کا دقیانوسی قبائلی معاشرہ ہے۔ کابل یا چند دیگر شہروں کی مثال یوں بے محل ہے کہ افغانستان کی جب بھی کسی نے اینٹ سے اینٹ بجائی تو قبائلی معاشرہ ہی غیروں کا دست وبازو بنا۔ تاریخ میںجب جب افغانستان جدت کی راہ پر گامزن ہوا ہر مرتبہ یہ کنزرویٹو قبائلی معاشرہ ہی تھا جو ترقی کی راہ میں مزاحم ہوا۔ آج بھی یہی معاشرہ افغانستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ خواہ اسے آپ بچہ سقہ کے حامیوں کا نام دیں، نام نہاد افغان مجاہدین کا نام ، طالبان کا یا اب داعش کا… یوں غیریقینی سے متعلق لارڈکرزن کا تاریخی قول ایک صدی گزرنے کے بعد بھی درست موجود ہے۔ اور جب تک جدید تعلیم سے آراستہ ایک ایسا معاشرہ جو دینی وملی اصولوں سے بھی مزین ہو معرض وجود میں نہیں آتا آپ لاکھ سہ فریقی ، پنج فریقی مصنوعی کا نفرنسیں کر لیں، دکھاوے کی ملاقاتیں ، دورے کر لیں۔ نتیجہ صفر ہی رہے گا جیسا کہ اب تک ایسی تمام دوڑ دھوپ کا نتیجہ صفر ہے۔جو لوگ گاہے گاہے امریکا بہادر کے دبائو یا دیگر وجوہ کی بنا پر ہونے والی نشست و برخاست کو پھوٹتے چشمے سےتعبیر کرتے ہوئے’ زم زم ‘ لکھنا شروع کردیتے ہیں ایسے ماہرینِ افغان امور کے منہ میں گھی شکر ،مگر ،ہنوز’ مرام ‘نادیدہ است... یہاں سوال یہ ہو سکتا ہے کہ کیا پھر دیگر ممالک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔ ہر گز نہیں، پہل مگر افغانوں کو ہی کرنی ہے یہ تو طے ہے کہ افغانستان میں امن وخوشحالی نہیں آئے گی تو دیگر ممالک بالخصوص پڑوسی بھی چین کی نیند سو نہ پائیں گے۔ حضرت اقبال نے یہی تو کہا تھا ؎
آسیایک پیکر آب وگل است
ملت افغاں درآں پیکر دل است
از فساد او فساد آسیا!
در کشاد او کشاد آسیا
تادل آزاد است آزاد است تن
ورنہ کا ہے در رہِ باد است تن
(ایشیا پانی ومٹی کا پیکر ہے ۔ ملت افغان اس پیکر میں مانند دل ہے۔ اس دل میں فساد ہو گا تو پورے ایشیا میں فساد ہو گا ، اس کی کشادگی پورے ایشیا کی کشادگی ہے۔ دل جب تک آزاد ہو گا تن بھی آزاد رہے گا۔ بصورت دیگر تن (جسم) کی مثال ہوا کے سامنے خش وخاشاک کی رہ جائے گی)۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ تن آج مانند خاشاک ہے۔ بلاشبہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی مہذب، جدید تعلیم یافتہ اور ماہرسیاسیات ہیں۔ پاکستان کا کوئی بھی حکمران علمیت میں اُن کے پائے کا نہیں ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ملا عمر کی طرح ان کی طرز حکمرانی سے بھی افغان قبائلی معاشرہ میں رتی برابر تبدیلی نہیں آسکی ہے۔ آج غیرملکی افواج چلی جائیں ملا عمر صاحب کا دور لوٹ آئے گا۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ آج جس افغانیت کا چرچا ہے آخر اس کا اثر اتنا کیوں نہیں ہےکہ افغان اپنے دوست دشمن میں تمیز کر لیں اور دشمن کے آلہ کار بننے پر آمادہ نہ ہوں۔ کیا یہ نااہلی کی انتہا نہیں ہے کہ دنیا جہان کی امداد ، فوجی تربیتوں کے باوجود افغان اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوسکے۔ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ انقلابیوں یا موروثی یا حادثاتی ہر حکمران نے صرف کابل کو افغانستان جانا اور کابل سے آگے وہ بے نور ہو گئے، یوں جب جب کسی بیرونی مداخلت کار کو ضرورت ہو ئی اسے افغانستان کےقبائلی علاقوں سے خائن تھوک کے بھائو دستیاب ہوگئے۔ آج بھی ایسے وطن فروشوں کی منڈیاں آباد ہیں۔
افغانستان کے پڑوس میں وہ ایران جس کے اصفہان پر افغانوں نے حکومت کی تھی، اُس کے دشمنوں کی تعداد ہر حوالے سے افغانستان سے زیادہ وبھرپور ہے،لیکن وہ ترقی کی راہ پر بے خوف دوڑ رہا ہے۔ کیا افغان اس امر پر غور کی زحمت کرینگے کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایران میں غدار نیست ونابود ہیں اور اس قوم پرستی کو علم وہنر نے ہی محفوظ بنادیا ہے۔
افغان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ان کے آبائو اجدادنے مختلف اوقات میں ہندوستان،اصفہان و ملتان پر حکومت کی ہے، ایسا ہی ہے ، لیکن وہ تلوار کا دور تھا۔سوال یہ ہے کہ قلم کو جنبش دئیے بغیر کیا آج محض تاریخ کےاوراق چاٹنے سے ہی نئے سورج کو’برآمد‘ کیا جائیگا!دورویش رحمان بابا کے لازوال شعر کامفہوم ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح دریاکو کوزے میں بندکردیا گیا ہے۔ فرماتے ہیں’’جو دُلہن خود خوبصورت نہ ہو، اُسے ایسے قصوں سے کیا فائدہ ہوگا کہ اُس کی ماں ونانی کےحُسن کے چرچے کبھی چہار دانگ تھے۔

تازہ ترین