• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے 50سال پہلے جب مشرقی پاکستان الگ نہیں ہواتھا توچند دوستوں نے تھائی لینڈ کے شہر بنکاک جانے کا پروگرام بنایا۔ ڈھاکہ مشرقی پاکستان سے تھائی ایئر جاتی تھی غالباً 6سوکا کرایہ تھا۔ ڈھائی گھنٹے کی مسافت تھی ۔ بنکاک کا ائیر پورٹ کراچی ائیرپورٹ سے چھوٹا تھا ۔اُس وقت ہمارے ایک روپے میں ڈھائی بھات اُن کی کرنسی میں ملتے تھے ۔اورڈالر4روپے 50پیسے کا تھا۔ 50 سال میں آج تین روپے میں ایک بھات ملتا ہے اور ڈالر106روپے کا ہوگیا ہے ۔پاکستان میں صنعتی ترقی زوروں پر تھی۔ ایوب خان کے مارشل لا کی وجہ سے سیاست دان غیر فعال تھے اور ملک میں کارخانوں ،فیکٹریوں کا جال بچھاہوا تھا ہماری ٹیکسٹائل ،پلاسٹک کاسامان ،سمندری فوڈز ایکسپورٹ ہوتے تھے جبکہ ہم نے دیکھا وہاں پر صرف مقامی ہوٹلوں کے علاوہ کوئی بڑی عمارتیں نہیں تھیں۔ انڈسٹریاں بھی چھوٹے پیمانے کی تھیں چھوٹی ٹیکسٹائل ملیں تھیں بقایا ساراسامان چائنا، ہانگ کانگ بعد میں تائیوان جاپان سے آتا تھا۔ جاپان کو چھوڑ کر ایشیا میں پاکستان سب سے آگے تھا۔ کوریا نے پاکستان سے انڈسٹریل پلان دیکھ کر ہماری طرح 5سالہ منصوبوں پر عمل شروع کیا۔ البتہ سستا ہونے کی وجہ سے دنیا بھر سے اور خصوصاً ایشیائی ممالک کے سیاح عیاشیاں، کلب کیسینو اور سمندری ساحلوں کو انجوائے کرنے تھائی لینڈ آتے تھے۔ ائیرپورٹ سے باہر نکل کر جب سیاح ٹیکسی میں ہوٹل جانے کے لئے روانہ ہوتے تو راستہ بھر ڈرائیور اِن کو مختلف فوٹودکھا کرمساج، شراب، جوا خانے یا شاپنگ کرانے کی پیشکش کرتا یہی ان کا کاروبار تھا۔ لیبر سستی ہونے کی وجہ سے شاپنگ اور کپڑوں کی سلائی بہت کم قیمت پر مل جاتی تھی۔ مردانہ اور زنانہ سوٹس صرف ایک دن میں کاریگر بناکر دے دیتے تھے جبکہ ہمارے ملک میں کئی ہفتوں میں جاکر سوٹ ملتے تھے اور وہ بھی دُگنی تگنی قیمت میں۔ انہی ہوٹلوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے بازار ہوتے تھے جو سیاحوں کی وجہ سے رات دیر تک کھلے رہتے ۔ ان سیاحوں کی آمدورفت کی وجہ سے حکومت نے آہستہ آہستہ کارخانے بنکاک شہر میں لگانے شروع کردیئے۔ بارشیں زیادہ ہونے کی وجہ سے پورا ملک ہرا بھرا تھا پھل اور سبزیوں کی بھر مار تھی۔ پھر سمندروں سے جھینگے، مچھلیاں، کریب، لابسٹرکی ایکسپورٹ شروع کی۔ غربت پاکستان سے کہیں زیادہ تھی۔ پھر جب جاپان میں لیبر اور زمین مہنگی ہوئی تو تھائی حکومت نے جاپان کو لیبر اور سستی زمین، بجلی کی آفر دی تو دیکھتے دیکھتے بڑے بڑے برانڈ جاپان سے تھائی لینڈ میں آتے گئے یوں دیکھتے ہی دیکھتے انڈسٹریل انقلاب آیا۔ آئی ایم ایف سے بھی انہوں نے بڑے بڑے قرضے لئے۔ سڑکیں پہلے بہت تنگ ہوتی تھیں۔ ٹیکسیاں اور ٹک ٹک (رکشہ) بھی پرانی ہوتی تھیں۔ گاڑیوں کی بہتات تھی تو راستہ میں رش لگا رہتا تھا۔ ایئرپورٹ جانے کے لئے 4گھنٹے پہلے جانا پڑتا تھا۔ سیاحوں کا ہجوم تھائی لینڈ کا رُخ کرنے لگا تو سٹرکیں کشادہ کردی گئیں پھر اوور ہیڈبرج چائنا کے تعاون سے بنائے گئے غالباً بیس 25سال کیلئے ٹول ٹیکس وہی بنانے والے وصول کرتے رہے۔ بنکاک سے باہر باغات کی جگہ انڈسٹریل پارک بناکر نئے نئے پلانٹ نصب ہوتے گئے ان 20سالوں میں بنکاک سے لے کر پتایا جو ایک چھوٹا سمندری ساحل تھا۔ 120کلومیٹر پر فیکٹریوں کی بھرمار ہوچکی ہے درمیان میں راقم بھی سیاحت کے لئے اپنے فیملی کے ساتھ آتا جاتا رہا ہر مرتبہ تھائی لینڈ میں مختلف ساحلوں پر نئے نئے ہوٹل ریسٹورنٹس بنتے گئے۔ صنعتی ترقی بھی نظر آتی رہی باوجود بادشاہت کے قوم اور حکومت جمہوری عمل میں بھی ترقی کرتی رہی الیکشن بھی ہوتے رہے بیچ بیچ میں فوجی حکمران بھی آئے۔ ایک وزیراعظم تھاجس نے ملک کو زبردست ترقی پذیر ملکوں میں شامل کرایا تھااور زیادہ عرصہ حکومت بھی کی تھی۔ ہمارے ملک کے سیاست دانوں کی طرح کرپشن میں ملوث پائے گئے وہ اقوام متحدہ میں شرکت کے لئے گئے واپسی میں جب لندن پہنچے تو فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا وہ ابھی تک جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر موجودہ خاتون وزیراعظم پر بھی کرپشن کا الزام لگا ۔ عدالت نے 5سال کی سزا اِن کی غیرموجودگی میں سنائی کیونکہ وہ دبئی فرار ہوگئی تھیں ابھی تک واپس نہیں آئیں کسی نے واویلا نے مچایا کہ ہمیں کیوں نکالا۔ ایشیامیں اس وقت سب سے زیادہ سیاح تھائی لینڈ کا رُخ کرتے ہیں۔ تھائی لینڈ اس وقت سمندری کھانےکی ایکسپورٹ میں سب سے آگے ہے۔ ہم اب اپنے ملک پاکستان سے موازنہ کریں تو ہمیں تھائی لینڈ کا ویزا لینا پڑتا ہے جبکہ پہلے ائیرپورٹ پر ملتا تھا ،اب ہمیں بینک اسٹیٹمنٹ اور دیگر ثبوت نامے بھی دینے پڑتے ہیں ۔ہم مسلسل حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سی فوڈ امپورٹ کررہے ہیں۔ ہمارا بیشتر زرمبادلہ فضول اشیاء میں ضائع ہورہا ہے۔ ہماری کرنسی روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہے ۔ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے۔ ہم ہرکسی کے آگے بھیک کا کشکول پھیلائے ہوئے ہیں ہر کوئی ہمیں دھمکا رہا ہے ۔عوام مہنگائی ،لاقانونیت ،بیروزگاری کے پھندے میں جکڑے ہوئے ہیں ۔اب جب ہم باہر جاتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم پہلے کہاں تھے اور اب کہاں تک گر چکے ہیں اور وہ ممالک ہمارے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔بحیثیت قوم اب ہم قوم نہیں رہے ایک ہجوم بن کر ادھر اُدھر مارے مارے پھررہے ہیں ۔درجنوں ادارے ہم نے کرپشن پکڑنے کے لئے بنا رکھے ہیں مگر آج تک کسی ایک کو بھی سزا نہیں ملی صرف کھچڑی پکتی ہے آس دلائی جاتی ہے پھر سب مک مکا ہوجاتا ہے ۔جس طرف بھی ہم جاتے ہیں وہاں کی ترقی دیکھ کر اپنے آپ پردُکھ ہوتا ہے ۔آخر کب ہم واپس ترقی پسند قوموں میں شامل ہونگے؟ہم ایک چھوٹے سے ملک سے بھی مقابلہ نہیں کرسکتے کہا ں ہم ایشین ٹائیگر بننے کے دعویدار تھے ۔پہلے 1971ء میں ملک دولخت ہواسب سے بڑا دھچکا پی پی پی کی پہلی حکومت نے تمام بڑے صنعتی ادارے قومیالئے جس سے ہمارے صنعت کاروں کا اعتماد ختم ہوگیا اور ہم آج تک سنبھل نہیں سکے۔ تمام تعلیمی ادارے قومیانے سے دوسرا نقصان، ہماری آنے والی نسل تعلیم سے دور ہوتی گئی۔۔ تعلیمی معیار اتنا گر چکا ہے کہ ہماری ڈگریوں پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ تیسرا نقصان تمام بنکس اور انشورنس کمپنیاں قومیا کر معیشت بٹھا دی اور بعد میں انہی بنکوں اور انشورنس کمپنیوں کو اونے پونے داموں بیچ دیا۔ الغرض ہم دن بہ دن پستی کی طرف جاکر ایشین ٹائیگر تو کجا ایشین بلی بھی نہیں بن سکے۔ اب ہمارے فوجی سربراہ پہلی مرتبہ ملک کی معیشت درست کرنے کے لئے میدان میں اُترے ہیں۔ وہ خود اپنی ٹیم کے ساتھ فیڈریشن اور چیمبرز آف کامرس اور بڑے بڑے صنعت کاروں سے مل کر پاکستان کی معیشت صحیح سمت میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ آج تک ہم سوئٹرزلینڈ سے 250ارب ڈالر کرپشن زدہ خزانہ واپس نہیں لاسکے حتیٰ کہ ہم نے سوئس حکومت سے درخواست بھی نہیں کی۔ البتہ روز قرضوں کے لئے آئی ایم ایف اور دوسرے اداروں سے اُن کی شرائط پر بھیک جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ جب تک صنعتکاروں کا اعتماد بحال نہیں ہوتا۔ بجلی، گیس اور تیل کی فراہمی سستے داموں میں ممکن نہیں ہوگی۔ سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی لاتعداد ٹیکسوں کی بھر مار خصوصاً سیلز ٹیکس 18فیصد پوری دنیا میں کہیں نہیں لگاخود امریکہ ،کینیڈا اور تھائی لینڈ میں 7فیصد سیلز ٹیکس عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ کیا ہمارا ملک ان ممالک سے بھی زیادہ ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح 0.6فیصد ودہولڈنگ ٹیکس جو دنیا میں کہیں وصول نہیں کیا جاتا اس کی وجہ سے بینکنگ سسٹم ختم ہوکر نقد اور ہنڈی کا کاروبار عروج پر ہیں۔ اس صورت میں ہماری معیشت کیسے درست ہوگی؟ جعلی معاشی ترقی کا دعویٰ کرنے والے واویلا کررہے ہیں کہ نواز شریف کے جاتے ہی معیشت بیٹھ گئی یہ کیسی ترقی تھی جو2ماہ برداشت نہ کرسکی؟

تازہ ترین