• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر مملکت اور چیئرپرسن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ماروی میمن کا یہ انکشاف کہ ملک کے44 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہونے کی وجہ سے ذہنی و جسمانی نشوونما سے متعلق بیماریوں میں مبتلا ہیں یقیناًنہایت تشویشناک ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور دیگر متعلقہ اداروں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ اس خطرناک صورت حال پر جلد از جلد قابو پانا ضروری ہے۔ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی میں22فیصد، بلوچستان میں61.2فیصد، خیبرپختونخواہ میں56.2فیصد اور اسلام آباد میں23.6فیصد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملک کے جو20اضلاع خوراک کی انتہائی قلت کا شکارہیں ان میں بلوچستان کے دس، فاٹا کے پانچ، خیبر پختون خوا کے تین جبکہ گلگت بلتستان اور سندھ کا ایک ایک ضلع شامل ہے۔ مجموعی طور پر خوراک کی بہتر صورت حال کے حامل اضلاع میں وفاقی دارالحکومت سمیت پنجاب کے14اورسندھ کے پانچ اضلاع شامل ہیں۔ اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو خدشہ ہے کہ آئندہ دس بارہ سال میں ہمارا ملک دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ 43 ملکوں میں سے ایک ہوگا۔ خوراک کی کمی کی تشویشناک صورت حال میں سب سے بڑا سبب عوام کی قوت خرید کا انتہائی کمزور ہونا ہے جس کا سب سے زیادہ اثر غربت کی انتہائی سطح پر زندگی گزارنے والی خواتین اور پانچ سال سے کم عمرکے بچوں پر پڑ رہا ہے۔ ان میں سرفہرست حاملہ خواتین ہیں جن کی بڑی تعداد یا تو زچگی کے دوران خون کی کمی کے باعث ہلاکت کا شکار ہو جاتی ہے یا ان کے اکثر نومولود بچے زندہ نہیں رہ پاتے۔ آبادی کا90فیصد سے زیادہ حصہ وہ ہے جہاں ایک ہی شخص کئی افراد کے کنبے کی کفالت کرتا ہے جس کے باعث کنبے کی لازمی ضروریات کی تکمیل بھی محال ہوتی ہے۔ اس صورت حال کو جلد از جلد بہتر بنانا ضروری ہے تاکہ وطن عزیز کی آئندہ نسلیں توانا اور صحت مند ہوں ۔پالیسی ساز اداروں کو اس ضمن میں تیزرفتارپیش رفت یقینی بنانی چاہئے۔

تازہ ترین