• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دلیرانہ بیان
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے:ہم مقدمات سے گھبرانے والے نہیں، مریم نواز کی جرأت و ہمت کو صرف اسلئے خود ن لیگ کے بعض سورما نہیں آگے بڑھنے دیتے کہ وہ جاگیردارانہ ذہنیت کے حامل، دقیانوسی خیالات کے مالک ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ ایک خاتون سیاست کی قیادت کی بات کرے، یہ ہمارا بڑا پرانا کلچر ہے قیامت کے روز سب کو ماں کے نام سے پکارا جائیگا، اس نقطے کو امریکہ نے تو سمجھ لیا ہمیں سمجھ نہ آیا، آج یو ایس میں بچہ اسکول داخل کرانا ہو تو ولدیت کے خانے میں ماں کا نام لکھا جاتا ہے، امام ابو حنیفہؓ نے کہا بچے کی پیدائش میں ماں کا 99فیصد اور باپ کا ایک فیصد کردار ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺ نے فرمایا ماں تین دفعہ باپ ایک دفعہ قابل احترام ہے، اسلئے آج مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہم پاکستانی مردوں کی اکثریت عورت کو صنف نازک کہہ کر دراصل اسے صنف کمزور سمجھتی ہے، مریم نواز، سابق وزیراعظم کی بیٹی نہ بھی ہوتیں تو ان کی قائدانہ صلاحیتیں ابھر کر سامنے آتیں، ان کا یہ کہنا کہ وہ مقدمات سے نہیں ڈرتیں، عدلیہ کا احترام ہے، مگر ہمارے ہاں منفی مطالب نکالنے کا رواج عام ہے اسلئے وہ اس جملے کو بھی عدلیہ کو للکارنے سے تعبیر کرینگے، قطع نظر اسکے کہ وہ ن لیگ سے ہیں، نواز شریف کی بیٹی ہیں بہت امیر کبیر ہیں، وہ یہ سب کچھ نہ بھی ہوتیں تو ان کے اندر چھپی قائد ضرور ابھر کر سامنے آتی، شریف خاندان میں نواز و شہباز کے بعد مریم تیسرا فرد ہیں جو سیاسی قائدانہ صلاحیتوں کی مالک ہیں، اسلئے صرف عورت ہونے کے ناتے اب کسی بھی باصلاحیت خاتون کو آگے آنے سے روکنا محض جہالت اور قدامت پرستی ہے، اب یہ مرد عورت کے چکر سے نکل آنا چاہئے، اور قائدانہ صلاحیت اگر مریم میں بھی ہو تو ایک دلیر پاکستانی خاتون کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭
قلم کو دھڑوں میں تقسیم نہ کریں
تحریر کی تاریخ تو لوح پر قلم سے رقم ہے، اور یہ ازل سے چلا آ رہا ہے کہ قلم لوح پر لکھتا چلا آ رہا ہے، اہل قلم وہ ہیں جو کسی دھڑے، گروہ یا سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہوتے انہیں جہاں بھی سچ نظر آتا ہے لکھ دیتے ہیں، اگر کوئی لکھنے والا محض اس لئے لکھتا ہے کہ اسے خود کو لکھاری ثابت کرنا ہے، شہرت حاصل کرنا ہے تو وہ صاحب قلم نہیں، صاحب سیف بھی نہیں، محض نرگسیت کا شکار ہے، آخر ایسا کیوں ہے کہ عوام اپنی اپنی پسند کا اخبار پڑھتے ہیں صرف اس لئے کہ قلم تقسیم ہو گیا ہے:ایک اگر عمران خان کے حق میں لکھنے کا ایکسپرٹ ہے تو دوسرا نواز شریف کی حمایت میں لکھنے کا ماہر، حالانکہ ارباب قلم کو فقط سچ لکھنے کا علمبردار ہونا چاہئے، زبان خلق نقارئہ خدا ہوتی ہے، اگر عوام کسی چینل یا اخبار کو جانبدار سمجھ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں تو میڈیا کو سمجھ لینا اور مان لینا چاہئے کہ وہ غیر جانبدار نہیں، اگر کوئی اخبار اور چینل سب کی رائے پیش کرتا اور کسی جماعت کے حق میں یا خلاف ایک ساتھ لکھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اخبار یا چینل جو دیکھتا ہے سامنے لے آتا ہے، اگر کوئی اخبار اپنے کسی ہمسائے سے بنا کر رکھنے کی بات کرتا ہے تو اس پر دشمن دوستی کا فتویٰ جڑ دینا اپنے ہی چہرے پر طمانچہ جڑنے کے مترادف ہے، کیا آج کے ایٹمی دور میں کوئی ملک کسی ملک کو فتح کر سکتا ہے، ماسوا اس کے کہ؎
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے
اگر کوئی لکھنے والا غیر جانبدار ہو کر لکھے کسی ایک جانب نہ جھکے تو اس پر بکائو مال کا ٹیکہ نہ لگے، پروپیگنڈے سے کسی اخبار کو بدنام کرنا صحافت نہیں حرافت ہے، اور صحافت کبھی حرافہ نہیں ہو سکتی، البتہ حق بولنا ہی اس کا مقام اس کی پہچان ہے، اگر اس ملک کا میڈیا ایک نہ ہوا تو یہاں قومی سطح کی سوچ پیدا نہیں ہو گی۔
٭٭٭٭
ہنسانے والے کی موت کا اعتبار کیسے!
کوئی سرکس کا جوکر تماشا دکھاتے دکھاتے گر جائے تو کسی کو اعتبار نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ کے لئے گر گیا ہے، سب کہتے ہیں جوکر ہے مکر کیا ہو گا ابھی اٹھ کھڑا ہو گا، پاکستان کے ایک مشہور و معروف مزاحیہ ٹی وی شو ’’عینک والا جن‘‘ کی عظیم فنکارہ بیگم نصرت آرا انتقال کر گئیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغرفت فرمائے، پروگرام میں یہ ’’بل بتوڑی‘‘ کے نام سے شہرت دوام پا گئی تھیں، اور یہ نام زبان زدعام و خاص ہو گیا تھا، اللہ بھلا کرے شہباز شریف کا جنہوں نے مرحومہ کی دل کھول کر مدد کی، اور بیماری کے دوران علاج کے لئے انہیں ایک لیٹر دیا جسے دکھا کر وہ کسی بھی اسپتال میں مفت علاج کرا سکتی تھیں، وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھیں اور وہ دل جس نے ہر دل کی دھڑکن کو قہقہے میں بدلا اپنے ہی دل کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئیں، جانا تو سب کو ہے مگر وہ جو ہر جانے والے کو ہنسا کر رخصت کرتے ہیں جب خود جانے لگتے ہیں تو ان کے اردگرد لاکھوں کروڑوں ہنسنے والوں میںسے کوئی بھی نہیں ہوتا، ہمارے اکثر شوبز کے افراد نہایت کسمپرسی میں ہم سے رخصت ہو جاتے ہیں، ’’بل بتوڑی‘‘ ایک ایسا امر کردار ہے جو مر نہ سکے گا البتہ بیگم نصرت آرا اس جہاں سے دور کسی اور جہاں چلی گئیں، ان کی باتیں، ان کے ایکسپریشنز اداکاری کی دنیا کے لئے ایک اکادمی کا درجہ رکھتی ہیں، ان کے سارے فن کا ریکارڈ موجود ہے، نئے مزاحیہ اداکار دیکھ دیکھ کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، نصرت آرا کے پاس ایک کمرے کا مکان تھا۔ انہوں نے ایک مکان بھی مانگا تھا مگر۔۔۔نوے کی دہائی میں بل بتوڑی اور عینک والا جن کی جوڑی نے دھوم مچا دی تھی، بچے بڑے سب بچے بن کر پروگرام دیکھتے اور محظوظ ہوتے لیکن آج وہ آواز خاموش ہو گئی جو مزاح کا دیپک تھی۔
٭٭٭٭
گالم گلوچ کی ڈکشنری بنا کر بین کر دیں
....Oعاصمہ جہانگیر:مرد وکلا کی بدمعاشی قبول نہیں۔
سارے مرد وکلا بدمعاش نہیں ہوتے جیسے ساری خواتین وکلا ایسی نہیں ہوتیں۔
....Oاشرافیہ کی غنڈہ گردی بڑا ایشو:خرم گنڈا پور۔
اشرافیہ اگر غنڈہ گردی پر اتر آئے تو شریف نہیں رہتی۔
....Oوزیراعظم:حکومت میں لانے اور نکالنے کا اختیار عوام کے پاس ہونا چاہئے۔
ایسا مت کہیں، اگر ایسا ہو گیا تو آپ کابینہ سمیت سڑکوں پر ہوں گے، کیونکہ عوام کی رائے اور کارکنوں کی رائے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
....Oترکی کے عوام بھی شہباز شریف کی غیر معمولی صلاحیتوں کے معترف۔
اگر صلاحیتوں کی یہی رفتار رہی تو شہباز شریف اپنی ڈیڑھ ایکڑ کی الگ مسجد بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
....Oپروڈیوسر ونسٹن پر انجلینا جولی سمیت 22اداکارائوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام۔
پروڈیوسر ونسٹن کیساتھ چرچل لگا دیں تو سارا معاملہ سمجھ آ جائے۔

تازہ ترین