• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انصاف میں عجلت، انصاف کی تدفین، کسی کو اپنی مرضی کے فیصلے دینے کا اختیار نہیں، چیف جسٹس ثاقب نثار

Todays Print

لاہور(نمائندہ جنگ، نیوز ایجنسیاں)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آئین صنفی امتیاز کے بغیر ہر شہری کو مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے ملک میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں ‘ ماڈل عدالتوں کا قیام اچھا آئیڈیا ہے، عدلیہ میں صنفی امتیاز کا خاتمہ اچھا اقدام ہے بطور جج ہم ہر شہری کو فوری اور معیاری انصاف فراہم کرنے کے پابند ہیں انصاف کی فراہمی میں عجلت انصاف کودفن کرنے کے مترادف ہے ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس تحریری شکل میں آئین ہے‘ آئین کے تحت ہر شہری کے لئے قانون یکساں ہے‘ ججز فیصلہ کرتے وقت قانون کو مدنظر رکھنے کے پابند ہیں،کسی جج کو قانون کی بجائے اپنی مرضی کے فیصلے دینے کا اختیار نہیں،جج درست فیصلوں کیلئے قانون پر دسترس حاصل کریں، بعض اوقات ہمارے خیالات، نظریات اور تعصب، قانون پر غالب آ جاتے ہیں جس سے غلط کام ہو جاتا ہے،ماڈل عدالتوں کا قیام اچھا آئیڈیا ہے۔

وہ گزشتہ روز پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے زیر انتظام مقامی ہوٹل میں منعقدہ دوسری پنجاب وومن ججز کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کر رہے تھے۔انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس ایک تحریری آئین موجود ہے جس میں خواتین اور مردوں کے بنیادی حقوق کی مکمل تشریح موجود ہے۔ انہوں نے شرکاء سے کہا کہ عدلیہ کے ادارے کا سربراہ ہونے کے ناتے ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ علم قانون پر دسترس حاصل کریں، ہم اور آپ نے قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں، کوئی بھی جج اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں میرا یقین ہے کہ زیر التواء مقدمات کو نمٹانے کےلئے مصالحتی مراکز کے علاوہ کوئی حل موجود نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی باعث مسرت ہے کہ پنجاب میں قائم ماڈل کورٹس میں مختصر عرصہ میں ایک بڑی تعداد میں مقدمات کے فیصلے ہوئے ہیں، لیکن ہمیں خیال رکھنا ہے کہ کسی ایک بھی مقدمے میں ناانصافی نہ ہو کیونکہ عجلت میں انصاف، انصاف دفن کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ انہوں نے جوڈیشل افسران سے کہا کہ ایک سول جج کی جانب سے کسی ایک غلط نقطے پر ہونے والا فیصلہ سپریم کورٹ تک سالوں ضائع کر دیتاہے، اگرضلعی عدلیہ اپناکام ذمہ داری کے ساتھ کرے گی تو اعلیٰ عدالتوں پربوجھ نہیں آئے گا، جج بن کر فیصلے کریں، یاد رکھیں سپریم کورٹ سے لیکر سول عدالت تک کوئی فرق نہیں سب جج ہیں۔ انہوں نے جوڈیشل آفیسرز کو تاکید کی کہ قانون پڑھیں اور قانون کا استعمال کریں اور مقدمات کو غیر ضروری التواءمیں نہ ڈالیں، مقدمات کاغیرضروری التواءایک بیماری ہے جس سے سائلین کوذہنی کے ساتھ ساتھ جسمانی اذیت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔

کانفرنس میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ، جسٹس مامون رشید شیخ، جسٹس محمد فرخ عرفان خان، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس عالیہ نیلم، جج شریعت کورٹ مسزاشرف جہاں، جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال، رجسٹرار سید خورشید انور رضوی، ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری محمد اکمل خان بھی شریک تھے۔ قبل ازیں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے کہا کہ شفاف انصاف کی فراہمی یقینی بنا رہے ہیں،خواتین ججز کا کردار اہم ہے، ان کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ جینڈر فری انصاف کرنیوالے ججوں کی ضرورت ہے، ہم نے گزشتہ ایک سال میں ضلعی عدلیہ کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ ججز کو با اختیار بنانے پر بھی کام کیا ہے اور جوڈیشل آفیسرز خاص طور پر خواتین ججز کو مناسب سہولتیں فراہم کی ہیں۔

لاہورہائی کورٹ سے ضلعی عدلیہ تک خواتین ججز کو ہر فورم پر بلا امتیاز نمائندگی دی گئی ہے۔لاہورہائی کورٹ کی دو فاضل ججز بجٹ و فنانس اور آئی ٹی سمیت متعدد کمیٹیوں کی ممبران ہیں اور ہرفورم پراپنامثبت کردار ادا کر رہی ہیں۔ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں موجودہ اور سابقہ ڈائریکٹر جنرل خاتون جج ہیں اور ایک خاتون جج کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بھی تعینات کیا گیا ہے۔خواتین ججز کے مسائل کے حل کےلئے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں ویلفیئر کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلعی عدلیہ اورلاہور ہائی کورٹ کے مابین بہتر رابطے کےلئے ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں خواتین سمیت سول ججز سے سیشن ججز تک تمام کی نمائندگی موجود ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایم آئی ٹی سیکشن کی تشکیل نو کرتے ہوئے ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری قائم کیا گیا جس میں ججز کے خلاف شکایات کے ساتھ ساتھ ججز کی فلاح اور ٹریننگز کے حوالے سے بھی معاملات دیکھے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صوبائی عدلیہ میں زیرالتواء کی کثیرتعداد بہت بڑا مسئلہ ہے، اس سے نمٹنے کےلئے ماڈل کورٹس، مصالحتی مراکز اور خصوصی عدالتوں کاقیام عمل میں لایا گیا۔ہماری عدالتوں میں آنے والاہر شخص سائل ہے وہ کوئی مرد یا خاتون نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئندہ تمام ججز اپنا نام مسٹر یا مسز کی بجائے جج لکھ کر شروع کریں گے، اس حوالے سے نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر جسٹس عائشہ اے ملک کو مبارکباد اور چیف جسٹس پاکستان کا کانفرنس میں شرکت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا چیف جسٹس پاکستان کی مدد کے بغیر عدلیہ میں اصلاحات کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔فاضل چیف جسٹس نے لاہور ہائی کورٹ اور ضلعی عدلیہ میں اصلاحات اوراقدامات کےلئے بین الاقوامی ڈونرز بشمول ورلڈ بنک، یورپین یونین، ایشیئن ڈویلپمنٹ بنک ایشیاء فاؤنڈیشن اور UNODC کابھی شکریہ ادا کیا۔جسٹس عائشہ اے ملک نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد کے متعلق بتایا اور تین روز کانفرنس کی سفارشات پیش کیں۔اختتامی سیشن سے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف وومن ججز کی صدر سوزانا میڈینا اور دیگر ممبران نے بھی اظہار خیال کیا اور اپنے تجربات و آئیڈیاز سے متعلق بتایا۔ کانفرنس میں انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف وومن ججز کے ممبران، سپریم کورٹ آف ساؤتھ آسٹریلیا کی سابق

جج ڈاکٹر رابن لیٹن، ڈی جی اکیڈمی ماہ رخ عزیز، ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے ججز شازیہ منور، عائشہ رشید، شازیب سعید اور حناءمظفر، چیئرپرسن پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف وومن فوزیہ وقار اور پروجیکٹ مینیجر فار جینڈر مینجمنٹ پنجاب مہرین صدیقی نے لیکچرز دیئے۔ کانفرنس میں پنجاب بھر کی خواتین ججز کے علاوہ کے پی کے اور اسلام آباد کی خواتین ججز نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس کے اختتام پر پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور دیگر مہمانوں کو سوینیئرز بھی پیش کئے گئے۔

تازہ ترین