• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدم استحکام پھیلانے والوں کی امیدوں پر پاک فوج کے ترجمان نے پانی پھیردیا

Todays Print

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)افراتفری اور عدم استحکام پھیلانے والوں کی امیدوں پر پاک۔فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پانی پھیر دیا ہے۔یہ افراد غلط اطلاعات پھیلا کر ملک میں انارکی کی فضا پھیلانا چاہتے تھے۔گزشتہ دو ماہ سے موجودہ حکومت پر دیگر مسائل کے علاوہ جس حوالے سے سب سے زیادہ تنقید کی جارہی تھی، وہ ملک کی معاشی صورت حال پر تھی، جو کہ اتنی بری حالت میں نہیں ہے جیسا کہ بتایا جارہا تھا۔اس مباحثے کو اس وقت زیادہ تقویت ملی جب سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی اس حوالے سے حکومت پر تنقید کی، ان کا کہنا تھا کہ ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کرنی چاہیئے۔جب کہ 2008میں انہوں نے اپنی حکومت بناتے وقت نواز شریف سے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنانے کا کہا تھا۔

وہ تمام افراد جو معاشی صورتحال کو برا گردان رہے تھے ، انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کا غلط مطلب نکالا۔یہ خطاب انہوں نے کراچی میں سرمایہ کاروں کے ادارے میں ایک سیمینار کے دوران کیا تھا۔ اس کا عنوان’’معیشت اور سیکوریٹی کا تعلق‘‘تھا، اس خطاب کو حکومت کے خلاف چارج شیٹ سمجھا گیا جو کہ دراصل ایک موقف تھا۔جیسے ہی معیشت کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈہ بڑھاتو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے نے سیاسی میدان میں اپنے آپ کو تجربہ کار معیشت دان بنا کر پیش کرنا شروع کردیا، ہر کسی نے معیشت کی خامیوں کو اجاگر کیا اور کسی ایک نے بھی معاشی شرح میں اضافے کی طرف اشارہ نہیں کیا۔یہ بلاشبہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس طرح کا تجزیہ حالیہ انتظامیہ کی معاشی کارکردگی پر کیا گیا۔اس حوالے سے ہر سیاسی جماعت نے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے رائے زنی کی اور مطالبہ کیا کہ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار مستعفی ہوں، پیپلز پارٹی بھی اس محاذ پر آگے آگے تھی۔شاہد وہ بھول چکی ہے یا پھر جان بوجھ کر اس بات کو نظر انداز کررہی ہے کہ ، وہ زرداری تھے ، جنہوں نے 2008میں اپنی حکومت بناتے وقت مسلم لیگ(ن)کے صدر نواز شریف سے مسلسل مطالبہ کرتے رہے کہ وہ وزارت خزانہ کے لیے اسحاق ڈار انہیں بخش دیں، کیوں کہ ان کے پاس اس پائے کا کوئی وزیر خزانہ موجود نہیں تھا۔

یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسحاق ڈار عوامی سطح پر معاشی اور سیاسی صورت حال پر رائے زنی نہیں کرتےاور وہ اس پالیسی پر اس وقت تک عمل پیرا رہیں گے ، جب تک وہ اس ریفرنس سے بری نہیں ہوجاتے جس کی سماعت ان کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ہورہی ہے۔جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کے اثاثے ان کی آمدنی سے موافقت نہیں رکھتے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاناما پیپرز میں اسحاق ڈار کا نام نہیں تھاکیوں کہ ان کی کوئی آف شور کمپنی نہیں تھی اور جس کسی نے بھی عدالت عظمیٰ میں شریف خاندان کے خلاف پٹیشنز دائر کی تھیں ،انہوں نے بھی ان کا نام معزول وزیر اعظم کے سہولت کار کے طور پر پیش کیا تھا۔تاہم 28جولائی کو سنائے جانے والے فیصلے میں فوری طور پر ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا کہا گیا۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، اسحاق ڈار کی کارکردگی سے مطمئن ہیں ۔جنرل باجوہ نے سیمینار میں اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں میں معاشی صورت حال پر ہمیشہ بات ہوتی ہے۔یہ ایک بہترین فورم ہے ، جس کےکئی اجلاس شاہد خاقان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد منعقد ہوچکے ہیں، جس میں معاشی صورت حال اور سیکوریٹی سے متعلق مسائل کے حوالے سے تجاویز سامنے آتی ہیں۔جب کہ یہ سول اور ملٹری کی اعلیٰ قیادت پر مشتمل ہے۔جب معاشی صورت حال پر عوامی سطح پر بات چیت کی جاتی ہے تو حکومت اور ان کے مخالفین اسے اپنے اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں ، جس سے انتظامیہ کی کارکردگی کا منفی تاثر ابھرتا ہے۔تاہم، یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ یہ غیر ضروری تنازعہ بغیر وقت کے زیاں کے ختم ہوگیا۔

آصف غفور کے بیان سے جمہوریت کے حامیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، جب کہ غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔عوامی سطح پر اس شٹ اپ کال کی اشد ضرورت تھی، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو اپنے آپ کو طاقتور حلقوں کا نمائندہ سمجھ رہے تھے۔اگر ایسا نہ ہوتاتو یہ انارکی پسند جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہی رہتے ۔تاہم فوج کے ترجمان کا یہ کہنا کہ آئین کے خلاف کچھ نہیں ہوگا اور پاک۔فوج سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، بلکہ اسے خطرہ عوام کی خواہشات اور جمہوری تقاضوں کے پورا نہ ہونے سے ہے۔سویلین بالادستی قائم رہے گی اور کوئی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ نہیں لایا جارہا۔یہ باتیں پروپیگنڈہ کرنے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔آصف غفور نے سخت سوالات کا بھی بخوبی جواب دیا۔

انہوں نے جیسے ہی پریس کانفرنس کا اعلان کیا تھا تو بڑے پیمانے پر قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں ۔اس طرح کے ماحول کی بیخ کنی ضروری ہے، انہیں چاہئے کہ وہ اس طرح کے معاملات میں خاصے محتاط رہیں ، تاکہ منفی سوچ کے حامل افراد تک کوئی غلط پیغام نہ پہنچے جس سے وہ مستفید ہوسکیں۔

تازہ ترین