• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانونی ماہرین اور سماجی مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار یا دوسرے الفاظ میں ناانصافی کے مترادف ہے۔ پاکستان میں یہ شکایت عام ہے کہ ہماری عدالتوں میں زیادہ تر مقدمات سالہا سال تک چلتے رہتے ہیں اس سے سائلین کو وقت اور پیسے کے ضیاع کے علاوہ شدید ذہنی دبائو کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے وقتاً فوقتاً اقدامات پر غور و خوض ہوتا رہتا ہے اور نظام عدل میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جس پر شاید ہی توجہ دی گئی ہو اور وہ ہے مقدمات کی سماعت اور فیصلوں میں غیر ضروری جلد بازی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خود اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے اور بجا طور پر کہا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں عجلت، انصاف کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ اتوار کو پنجاب ویمن ججز کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں ہر شہری کو فوری اور معیاری انصاف فراہم کرنے کی پابند ہیں لیکن کسی شخص کو اپنے مقدمے کی پیروی کے لیے مناسب وقت نہ دیا گیا اور ہماری دلچسپی صرف اعداد و شمار میں رہی تو یہ بہترین انصاف نہیں ہو گا ہمیں خیال رکھنا ہے کہ کسی ایک مقدمے میں بھی ناانصافی نہ ہو۔ اپنی فاضلانہ تقریر میں انہوں نے انصاف کی فراہمی کے لیے آئینی تقاضوں، مقدمات کے غیر ضروری التوا، ماتحت عدالتوں کی کارکردگی اور نظام عدل کے حوالے سے دوسرے مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے ہر شہری کے لیے قانون یکساں ہے۔ آئین جنسی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کو مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ ججز فیصلے کرتے وقت قانون کو مدنظر رکھنے کے پابند ہیں۔ کسی جج کو قانون کی بجائے اپنی مرضی کے فیصلے دینے کا اختیار نہیں۔ بعض اوقات ہمارے خیالات، نظریات اور تعصبات قانون پر غالب آجاتے ہیں جس سے کام غلط ہو جاتا ہے آئین میں خواتین اور مردوں کے حقوق کی مکمل تشریح موجود ہے۔ جج درست فیصلے کرنے کے لیے قانون پر دسترس حاصل کریں۔ زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کے لیے انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک موجودہ حالات کے تناظر میں مصالحتی مراکز کے سوا کوئی حل نہیں، اس سلسلے میں ماڈل عدالتوں کا قیام اچھا آئیڈیا ہے۔ ان عدالتوں میں مختصر عرصے میں بڑی تعداد میں تاخیر کے شکار مقدمات کے فیصلے ہوئے ہیں۔ مقدمات کو غیر ضروری التوا میں ڈالنا ایک بیماری ہے جس سے سائلین کو ذہنی کے ساتھ جسمانی اذیت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ضلعی عدالتیں اپنا کام ذمہ داری سے کریں تو اعلیٰ عدلیہ پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ چیف جسٹس کی ساری باتیں قانون کی حکمرانی کے لیے نہایت اہم ہیں۔ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سب سے زیادہ توجہ طلب مسئلہ ہے لیکن غیر ضروری عجلت بھی ججوں، قانون سازوں اور قانون دانوں کے لیے سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو فیصلے فریقین کو اپنا موقف پیش کرنے کے لیے مناسب وقت دیئے بغیر جلد بازی میں کئے جاتے ہیں ان سے اکثر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ مقدمہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے دنوں یا مہینوں میں نمٹنانے کی پابندی لگانے سے مدعی اور مدعاعلیہ دونوں کیلئےشکایات کا موقع پیدا ہوتا ہے۔ جلد بازی میں گواہ پیش کرنا یا دستاویزی ثبوت مہیا کرنا بعض صورتوں میں عملی طور پر ممکن نہیں ہوتا اور فیصلہ جس فریق کے خلاف جائے اسے ناانصافی کا گلہ رہتا ہے۔ اس تناظر میں جناب چیف جسٹس کے یہ ریمارکس بالکل درست ہیں کہ انصاف میں عجلت انصاف کودفن کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن فیصلوں میں عجلت درست ہے نہ تاخیر، ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں عدالتی نظام میں اصلاح کا عمل جاری رہتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی نظام عدل میں اصلاحات کی ایک عرصہ سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کیلئے مصالحتی عدالتوں کا قیام مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کو معیاری انصاف کے لیے نظام عدل کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

تازہ ترین