• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظام قدرت بھی خوب ہے۔ جھوٹ کا جادو تھوڑی دیر کے لئے سر پر چڑھ کر بولتا ہے بلکہ کبھی کبھی سر پر چڑھ کر چلاتا ہے۔ پھر وقت کی آندھی چلتی ہے تو جھوٹ کے سارے چراغ بجھ جاتے ہیں اور سچ کے روشن مینار جگمگانے لگتے ہیں۔ تاریخ کا سچ یہ ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اور جھوٹ ایک وقتی ’’حادثہ‘‘ ہوتا ہے جب کہ حق کو دوام ہے اور حق کی روشنی انفرادی اور قومی زندگی کی راہوں کو منور کرتی رہتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں کچھ علماء یا مولوی حضرات کو ہمیشہ فتوے دینے کا شوق رہا ہے۔ شاید انہیں رعب جمانے اور اپنی حیثیت منوانے کا عارضہ لاحق ہوتا ہے یا پھر ان پر شہرت کے حصول کا شوق سوار ہوتا ہے۔ 4اکتوبر کو دی نیوز میں ضیغم خان صاحب نے لکھا کہ علامہ اقبال کو مسجد وزیر خان کے خطیب نے مرتدقرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ دیا تھا اور یہی فتویٰ امام کعبہ نے بھی علامہ اقبال کے حوالے سے جاری کیا تھا۔ میں نے ضیغم خان کا آرٹیکل پڑھا تو احساس ہوا کہ تاریخ ہماری آنکھوں کے سامنے بدلی جارہی ہے اور پھر خیال آیا کہ ہمیں سچ مچ پڑھے لکھے مدیران (Editor)کی ضرورت ہے جو الفاظ کو چھاپنے سے پہلے ان کی تصدیق بھی کر لیا کریں۔ پہلے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ علامہ اقبال کے ضمن میں امام کعبہ نے کبھی کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ اگر آپ کے پاس اس کا ثبوت ہے تو براہ کرم سامنے لائیں تاکہ ہم جیسے نیم جاہلوں کی تصحیح ہو۔ البتہ مسجد وزیر خان کے خطیب مولوی ابو محمد سید دیدار علی شاہ نے فتویٰ ضرور دیا تھا جس پر ان کی بہت لعن طعن ہوئی اور بالآخر انہوں نے معذرت بھی کی۔ پس منظر کے طور پر لکھنا ضروری ہے کہ کسی پیرزادہ صدیق سہارنپوری نے علامہ اقبال کی نظم ’’آفتاب‘‘ پر ایک استفتاء مرتب کر کے مولانا دیدار علی شاہ کو بھجوایا تھا۔ یہ نظم بانگ درا میں شامل ہے۔ مولانا دیدار علی بقول عبدالمجید سالک شوق تکفیر کے لئے بے حد شہرت رکھتے تھے اور کئی مسلمان زعماء کو کافر قرار دے چکے تھے۔ انہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ یہ نظم علامہ اقبال کی ہے۔ شوق تکفیر میں فتویٰ جاری کردیا اور جب شاعر کا پتہ چلا تو افسوس کا اظہار کیا۔ اس فتوے کا چند روز ذکر رہا اورپھر وقت کی آندھی نے اس جھوٹ کا نام و نشان مٹا دیا۔ آج تاریخ میں علامہ اقبال مفکر اسلام، مفسر قرآن اور عاشق رسول ﷺ کے بلند مقام پر متمکن ہیں اور کسی خطیب، عالم دین اور امام مسجد کا خطبہ علامہ اقبال کے اشعار کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔بلاشبہ جھوٹ مٹ جاتا ہے اور سچ کو دوام حاصل ہے۔
اسی طرح کا ایک فتویٰ مجلس احرار کے مولانا مظہر علی اظہر نے دیا تھا اور جوش تقریر میں قائداعظم کو کافر اعظم قرار دیا تھا۔ ان کےاس خطاب پر حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کو بھی افسوس ہوا تھا اور شورش کاشمیری مرحوم کے بقول مولانا اظہر کے ان الفاظ یا فتوے کے پس پردہ کانگریس کا مال و زر بول رہا تھا۔ آج مولانا مظہر علی اظہر کا نام صرف اس ’’تکفیر‘‘ کے حوالے سے مانوس اور ناپسندیدہ ہے جب کہ قائداعظم کے عظمت کردار کا روشن مینار ہماری تاریخ کے صفحات کو منور کررہا ہے۔ مطلب یہ کہ علامہ اقبال کی مانند قائداعظم محمد علی جناح کے نام کو بھی تاریخ میں دوام کا مرتبہ حاصل ہوچکا ہے۔ اسی طرح قومی سطح پر کئے گئے ’’دھوکے‘‘ قوم سے کی گئی غداریاں اور قومی وسائل کی لوٹ مار بہرحال ایک نہ ایک دن بے نقاب ہوتی اور بولتی ہے۔ انہیں زیادہ دیر تک چھپایا جاسکتا ہے نہ خاموش رکھا جاسکتا ہے۔ یہ قانون قدرت ہے جس کے مظاہر سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ آپ اسے مکافات عمل بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں تاریخ سے مظلوم کردار تلاش کر کے نوحے لکھنے کا بھی رواج ہے اور مثالیں دینے کا بھی شوق ہے۔ میں نے اپنے اتوار والے کالم میں بدلتی تاریخ کے ضمن میں پاکستان کے پہلے وزیر قانون جناب جوگندرناتھ منڈل کا ذکر کیا تھا اور کچھ تاریخی واقعات کی تصحیح کی تھی جنہیں ہمارے جذباتی لکھاری قوم کی ملامت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملامتی لکھاری قارئین کو جذبات میں بہانے کے لئے تاریخ کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں اورواقعات خود گھڑ گھڑ کر لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ہندو معاشرے میں اچھوت کے مقام پر لکھنے کی ضرورت نہیں بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ہندو معاشرے میں اچھوت کو جانور سے بھی کم حیثیت دی گئی ہے لیکن قائداعظم نے منڈل صاحب کو قیام پاکستان سے قبل عبوری کابینہ میں مسلم لیگ کے کوٹے پر وزیر نامزد کر کے اور قیام پاکستان کے بعد وزارت قانون کا قلمدان دے کر انسانی برابری کی بہترین مثال قائم کی تھی۔ چاہئے یہ تھا کہ جناب منڈل اس اعزاز اور عزت کے لئے پاکستان کے ممنون احسان رہتے اور پاکستان میں رہ کر سماجی و قانونی ناانصافیوں اور اقلیتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھتے مگر انہوں نے وزارت چھوڑ کر چپکے سے ہندوستان ہجرت کر لی اور ہندو معاشرے میں پھر سے اچھوت بن گئے۔ ان کے استعفیٰ کے مطابق اگر انہیں دکھ تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں سے اچھا سلوک نہیں ہورہا یا انہیں قرارداد مقاصد پر افسوس تھا تو وہ یہاں رہ کر جدوجہد کرتے اور اپنی حیثیت سے اقلیتوں کو فائدہ پہنچاتے۔ وہ وزیر قانون تھے جب قرارداد مقاصد اسمبلی میں پیش ہوئی اگر انہیں اس پر اعتراض تھا تو استعفیٰ دے دیتے اور بحیثیت رکن اسمبلی کے بنچوں پر بیٹھ جاتے۔ یاد آیا کہ کبھی کبھار ہمارے سیاستدان انہیں استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور مخصوص پیغام دینے کا ذریعہ بناتے ہیں حالانکہ اسلام اقلیتوں کو برابری کا درجہ دیتا ہے جس کی لاتعدادمثالیں خلافت راشدہ کے دور میں ملتی ہیں۔ مجھے علم نہیں کہ جناب اعتزاز احسن صاحب کیا کہنا چاہتے تھے لیکن ان کا اخبار میں چھپنے والا بیان یہ تھا کہ اگر قائداعظم زندہ رہتے تو ہندو وزیر قانون سے دستور بنواتے۔ اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ مسودہ قانون یا آئین منتخب اسمبلی کی کمیٹیاں بناتی ہیں اور پھر کابینہ کی منظوری کے بعد مسودے کو اسمبلی کی منظوری کے لئے پیش کیا جاتا ہے جہاں ایک ایک لفظ اور سطر پر بحث ہوتی ہے۔ وزیر قانون کا کام فقط اسے پیش کرنا ہوتا ہے۔ قرارداد مقاصد پر لبرل اور سیکولر حلقے بڑھ چڑھ کر اعتراضات کرتے ہیں لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ اسلامی و جمہوری آئین کی بنیاد قرار دی جانے والی قرارداد مقاصد جب مارچ 1949ء میں آئین ساز اسمبلی سے منظور ہوئی تو جناب جوگندرناتھ منڈل ہی پاکستان کے وزیر قانون تھے اور انہوں نے اس کی حمایت کی تھی حالانکہ قرارداد مقاصد مولانا شبیر عثمانی نےڈرافٹ کی تھی اور قائد ایوان جناب لیاقت علی خان نے پیش کی تھی۔ اگر آئین بھی ان کی موجودگی میں بنتا تو اسی طرح منظور ہو جاتا جس طرح قرارداد مقاصد منظور ہوئی تھی اس میں کیا خاص نکتہ پنہاں ہے؟ مجھے علم نہیں۔

تازہ ترین