• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی عرب کے فرمان روا شاہ سلمان گزشتہ دنوں ماسکو گئے۔ یہ کسی بھی سعودی حکمران کا پہلا دورۂ روس تھا۔ ان کے وفد میں 1500افراد شامل تھے جن دو ہوٹلوں میں انہوں نے قیام کیا ان دونوں ہوٹلوں کوخالی کروا لیا گیا تھا۔ ہوٹل اسٹاف کی جگہ ذاتی شاہی خادمین نے لے لی تھی۔ ماسکو میں پوراشاہی جلال نظر آیا۔ 81 سالہ سعودی حکمران کے شان و شوکت کی کئی کہانیاں عالمی میڈیا میں موجود ہیں۔ لوگوں نے ماسکو ایئرپورٹ پر طیاروں کے آنے جانے کے تمام مناظر دیکھے۔ یہ طیارے تھے جو وفد کے شاہی افرادکے لئے کبھی پانی لاتے تھے تو کبھی خوراک، کبھی لباس تو کبھی خوشبو۔ شاہ سلمان جب جہاز سے اترتے ہیں تو ان کے لئے گولڈن سیڑھی لگائی جاتی ہے۔ شاہ سلمان جب روس آئے تو ان کی آمد سے پہلے ان کے لئے قالین پہنچا دیئے گئے۔ ان کے استعمال کافرنیچر بھی ایک جہازمیں لاد کر ماسکولے جایا گیا۔ فروری میں شاہ سلمان نے انڈونیشیا کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت بھی ایک ہزار افرادوفد میں شامل تھے۔ جکارتہ پہنچنے کےلئےسعودی شاہی وفد نے 27 طیارے استعمال کئے۔ واقعہ مختصر سعودی حکمران جہاں کہیں بھی جائیں ان کی شان و شوکت یہی ہوتی ہے۔ 81سالہ شاہ سلمان پتا نہیں یہ سوچتے ہیں یا نہیں کہ وہ مزید کتنا عرصہ زندہ رہیں گے، ہوسکتا ہے انہوں نے نہ پڑھا ہو کہ ان کا مذہب اس جاہ و جلال کی نفی کرتا ہے۔ مذہب سادگی کی ترغیب دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے ان لوگوں نے یہ نہ پڑھا ہو کہ یہ جس مذہب کے ماننے والے ہیں اس کے خلفا زمین پربیٹھ جایا کرتے تھے۔ ان کی خوراک سادہ ہوتی تھی۔ وہ تو دوران سفر اپنے غلاموں کے ساتھ بھی باریاں بدلتے تھے۔ ان کے گرد پروٹوکول کے لائو لشکر نہیں ہوتے تھے۔ ان سے ملنے کے خواہشمندوں کے سامنے سکیورٹی کی دیواریں نہیں ہوتی تھیں۔ ان کے نزدیک آداب ِ شاہی کو ہیچ سمجھا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے آج کے مسلمان حکمران تاریخ کے سارے سبق بھول چکے ہیں۔ انہیں یہ یاد نہیں کہ اسکندر اعظم بھی دنیا سے خالی ہاتھ گیا تھا۔ سبق بھول جانے والوں میں صرف سعودی شاہ ہی نہیں کئی اور مسلمان حکمران بھی شامل ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کرنل قذافی کی شان و شوکت دنیا دیکھتی تھی۔ اس کا بیٹا سیف دنیا بھر میں دولت کی نمائش کرتا تھا۔ اس نے زندگی کا مقصد صرف دولت کو سمجھ رکھا تھا۔ وہ خوشبوئوں میں رہتا تھا۔ پروٹوکول کا دلدادہ تھا۔ مہنگی ترین اشیا کا استعمال فخریہ انداز میں کرتاتھا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ صدام حسین کا رعب داب انسانوں کے لئے عذاب بنا ہوا تھا۔ ماضی قریب ہی میں شاہ ِ ایران دولت کی فخریہ پیشکش کے طور پر سامنے آتا تھا پھر جب اس کے پاس دولت نہ رہی تو رسوائیوں کا سامنا تھا۔ ماضی کا حصہ بن جانے والے مصر کے حسنی مبارک ہمارے حکمرانوں کی طرح بیرونی دنیا میں علاج کرواتے تھے۔ بہت افسوس ہے کہ مسلمان دنیا دولت کی اس بیماری میںبری طرح مبتلا ہے۔ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کی اکثریت شاہی پروٹوکول کے حصار میں جکڑی ہوئی ہے۔ مسلمان حکمرانوں کی اکثریت دولت کے بل بوتے پر رعب داب کی نمائش کرتی ہے۔ مزید بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان جیسے مقروض ملک کے حکمرانوں کی عیاشیاں بھی دولت کی نمائش کا اظہار کرتی ہیں۔ حال ہی میں ہمارے وزیراعظم نے دورہ ٔ امریکہ میں سفر کے لئے جو گاڑیاں حاصل کیں وہ فرانس جیسا امیر ملک نہ کرسکا، فرانس کا حکمران پاکستان کے وزیراعظم کے مقابلے میں بہت غریب نظرآیا۔
پچھلے تیس پینتیس برسوں سے پاکستان میں نام نہاد جمہوریت کے ٹھیکیداروں نے لوٹ مار کا گھنائونا کھیل شروع کر رکھاہے۔ اقتدار میں رہنے والی دو بڑی پارٹیوں کے شاہی خاندانوں کے علاوہ ان کی حواری چھوٹی پارٹیوں کے چھوٹے شاہوں نے بھی بیرونی دنیا میں دولت کے ڈھیر لگا رکھے ہیں۔ پاکستان کو لوٹنے والوں کی بڑی عمارتوں اور دولت کی ریل پیل کے سلسلے عرب ملکوں سے شروع ہوتے ہیں۔
ان کے طولانی سلسلے یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ دوسرے مسلمان حکمرانوں کی طرح ہمارے حکمران بھی نمائش پسند ہیں مگر فرق صرف اتنا ہے کہ دوسرے مسلمان ملکوں میں دولت بے پناہ ہے جبکہ ہماراملک مقروض ہے۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ معیشت ہچکولے کھانا شروع ہوگئی ہے۔ پاکستان کو لوٹنے والے ماضی کے سارے سبق بھول چکے ہیں۔ انہیں یہ یاد نہیں کہ بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل بننے کے بعد ماہانہ ایک روپیہ تنخواہ لیتے تھے جبکہ پاکستان بننے سے پہلے بھی قائداعظم بڑی باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے تھے مثلاً انہوں نے1939-40 میںاپنی سالانہ آمدن 82ہزار 335روپے پر 4498 روپے ٹیکس ادا کیا تھا۔ افسوس کہ پاکستان کولوٹنے والے اتنا ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے جتنا قائداعظم 1939-40 میں ادا کردیا کرتے تھے۔ پاکستان بنانے والے لوگ کس قدر عظیم تھے، یہ جاننے کے لئے ایک چھوٹا سا واقعہ رقم کررہاہوں، ہوسکتا ہے کسی کی آنکھیں کھل جائیں۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس محمد حلیم کےوالد محمد وسیم برصغیر پاک و ہند کے مشہور وکیل تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے ان کی ماہانہ آمدن ایک لاکھ روپے سے زیادہ تھی۔ جب پاکستان بنا تو قائداعظم نے محمد وسیم کو پیغام بھیجا کہ میری خواہش ہے کہ آپ پاکستان کے پہلے اٹارنی جنرل بنیں مگر تنخواہ پانچ ہزار ہوگی۔ اس سے زیادہ تنخواہ کا بوجھ پاکستان کا خزانہ نہیں اٹھا سکتا۔ اس پیغام کے بعد محمد وسیم قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ’’آپ کو چاہئے تھا کہ آپ مجھےحکم دیتے کہ وسیم ایک لاکھ روپیہ ماہانہ پاکستان کے خزانے میں جمع کرائو اور ملک کی خدمت اعزازی طور پر کرو۔ پاکستان اس لئے نہیں بنا کہ میرے جیسے صاحب ِ حیثیت لوگ قومی خزانے سے تنخواہ لیں۔‘‘
خواتین و حضرات! ایک طرف یہ جذبہ تھا اور آج دوسری طرف صرف لوٹ مار کی کہانیاں ہیں۔ ہر طرف کرپشن ہے۔ یہ لوٹ مار، یہ منی لانڈرنگ، یہ کرپشن کا سارا کھیل، یہ تو قابل فخر بات نہیں۔ فخر تو صرف ملک کی خدمت پر کیاجاسکتاہے۔ بقول شازیہ اکبر؎
عشق کہتا ہے ابھی اس کا ہنر خام رہے
لوگ کہتے ہیں کمالات سے آگے نکلے

تازہ ترین