• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
انٹری ٹیسٹ اسکینڈل کے حوالے سے انکوائری جاری ہے۔ اس وقت پروفیسر ڈاکٹرفیصل مسعود جیسےانتہائی ایماندار روایات ا ور اقدار کے امین استاد اس سارے واقعہ کی انکوائری کررہے ہیں اور یقیناً میڈیکل ایجوکیشن کے اس بدترین ا سیکنڈل کے بہت سےپہلو سامنے آئے بلکہ ہوسکتا ہے کہ کچھ ایسے نام بھی سامنے آئیں جن کے بارے میں شاید چوہدری شجاعت حسین کا تاریخی جملہ کہنا پڑے کہ’’ مٹی پائو‘‘۔ ہٹایا گیا وائس چانسلر اس کا کنٹرولر، اس کی ڈپٹی کنٹرولر، ایک سابق وائس چانسلر اور مانیٹرنگ آفیسر دو سو اسٹوڈنٹس سے اربوں روپے اکیلے نہیں کھا سکتا اور برسہا برس سے جاری اس گھنائونے اور مکروہ کاروبار میں کئی اور افراد بھی یقیناً شامل ہوں گے اور کیا خبر حصہ کس کس کو جاتا رہا ہے۔ اس کا ایک سابق وائس چانسلر نے(جو کہ پاگلوں کا علاج کرتا ہے اور لوگوں کو بھی پاگل بنانے میں مہارت رکھتا ہے) اپنے موبائل فون پر یہ رنگ ٹون لگا رکھی ہے جو واقعی اس واقعہ کے بعد اس پر پوری صادق آتی ہے؎
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہو، کم یاب ہیں ہم
اور آج بھی اس کا اس ادارے میں عمل دخل ہے اور دوسری طرف جس قائمقام وی سی کو کرپشن پر ہٹایاگیا ہے وہ اسٹاف کو دھمکیاں دیتا رہتا ہے، کہ اگر کسی نے اس کے خلاف زبان کھولی تو نتائج کا ذمہ دار خود ہوگا کیونکہ میں دوبارہ آئونگا۔ واقعی ایسے ’’فنکار‘‘ تعلیم کے شعبے میں کہاں ملیں گے۔ واقعی کسی بھی ملک میں میڈیکل ایجوکیشن کے ساتھ اس قدر بھیانک مذاق کوئی نہیں کرسکتا۔ کرپشن کرنے والے نہ صرف نایاب ہوتے ہیں بلکہ کم یاب بھی ہوتے ہیں اور بڑے شاطر اور چالاک بھی ہوتے ہیں۔ایک طرف ڈاکٹر عاصم ہیں جن پر اربوں روپے کی کرپشن کا الزام ہے وہ انصاف کی بھیک مانگ رہےہیں اور کہتے ہیں کہ میں بے گناہ ہوں اور میری بددعائوں سے حکومت پر سخت وقت آرہا ہے۔ کوئی اپنی زندگی کے بارے میں کتاب لکھ کر دانشور بن جاتا ہے، کوئی حکمرانوں کو ادویات دے کر پاکباز بن جاتا ہے۔ عزیز قارئین دیکھیں کیا تماشا ہے کہ یو ایج ایس(UHS)کے ملازمین نے انٹری ٹیسٹ کے لئے اکیڈیمی بنا رکھی تھی بلکہ وہاں پر اسٹوڈنٹس کو کہا جاتا تھا کہ فلاں اکیڈیمی کے اسٹوڈنٹس تو سو فیصد یو ایچ ایس کا انٹری ٹیسٹ پاس کرلیتے ہیں۔ دوستو! بات دراصل یہ ہے کہ جب کرپشن کے انبار اوپر تک لگے ہوئے ہوں تو پھر کون نہیں جوبہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے گا۔ اس ملک میں ہر محکمہ کرپشن کا ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جس کے بارے میں حکمراں جان بوجھ کر بے خبر رہتے ہیں کیونکہ وہ خود کرپشن کے سمندر سے ڈول بھر رہےہیں۔ یو ایچ ایس کے قیام کے حوالے سے ہم پچھلے کالم میں کہانی بیان کرچکے ہیں۔ اس یونیورسٹی کو بناتے وقت مرحوم ڈاکٹر محمود چوہدری اور ان کے ساتھیوں نے ایک دلیل یہ بھی دی کہ پنجاب کے تمام بورڈز یعنی انٹرمیڈیٹ اینڈ اسیکنڈری بورڈز میں انتہائی کرپشن ہوچکی ہے، وہاں پیسے لے کر اسٹوڈنٹس کے نمبر بڑھائے جاتے ہیں۔ ری چیکنگ میں ہر طالبعلم کے نمبر بڑھ جاتے ہیں پھر پرچے آئوٹ ہوجاتے ہیں۔ بورڈز کا عملہ ملا ہوا ہے۔ کتنی دلچسپ حقیقت ہے کہ ایک حکومتی ادارہ اور لوگ دوسرے حکومتی ادارے پر اعتراض کررہے تھے۔ بجائے کہ بورڈز کا نظام درست کرتے یو ایچ ایس بناڈالی۔ اب یو ایچ ایس میں اتنا بڑا اسکینڈل سامنے آیا تو حکومت اسٹوڈنٹس کے انٹری ٹیسٹ کے لئے ایک اور ادارہ بنادے گی کیونکہ جب بورڈز اور یو ایچ ایس دونوں پر سوالیہ نشان آچکا ہے تو پھر یو ایچ ایس جیسے سفید ہاتھی کو پالنے کی کیا ضرورت ؟
اس ملک کے غریب اسٹوڈنٹس کے ساتھ جو ظلم و ستم ہو رہا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ غریب اسٹوڈنٹس کے لئے تعلیم کے دروازے بند کئے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پسماندہ علاقوں کے غریب اسٹوڈنٹس اگر 90فیصد نمبر حاصل بھی کرلیں تو تب بھی وہ میڈیکل کالجوں تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ نہ تو ان کے پاس اکیڈیمیوں کی بھاری فیسیں ادا کرنے کے لئے پیسے ہیں نہ سفارش اور نہ انہیں انٹری ٹیسٹ کے پرچے حل کرنے آتے ہیں۔ اس پر ظلم یہ ہے کہ یو ایچ ایس کا عملہ کبھی ان غریب اسٹوڈنٹس کو مناسب رہنمائی فراہم نہیں کرتا۔ دوسری طرف یو ایچ ایس نے کبھی بھی سال بھر میں بار بار ایسے تربیتی سیشن نہیں کرائے جس میں وہ طلبا جو یونیورسٹی کے اساتذہ کو رشوت اور اکیڈیمی کی فیسیں ادا نہیں کرسکتے ان کی رہنمائی ہوسکے اور اگر جو ایک آدھ سیشن کرایا بھی جاتا ہے تو وہ بھی نامکمل تاکہ اسٹوڈنٹس مجبوراً اکیڈیمیوں کی طرف جائیں، مگر یہاں پر دو نجی اکیڈیمیوں کو یونیورسٹی کے بعض لوگوں کی سرپرستی حاصل تھی بلکہ باوثوق ذرائع تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایک نجی اکیڈیمی تو ایک عہدے دارکے خاوند نے قائم کر رکھی تھی جو فی اسٹوڈنٹس 12لاکھ روپے لے کر پہلے ٹیسٹ کی تیاری کراتے اس کے بعد پرچہ کے سوالات بتاتے اور انہیں حل کرنے کے طریقے بھی بتائے جاتے ہیں۔ اب تک نو ملزم گرفتار ہوچکے ہیں جن میں پانچ ڈاکٹرز شامل ہیں۔ ایک مقدس پیشے سے وابستہ یہ ڈاکٹرز جو کہ اساتذہ بھی ہیں اس حد تک اخلاقی گرائوٹ کا شکار ہوچکے ہیں اس پر کیا تبصرہ کرنا۔ اس سارے کاروبار کا سرغنہ ڈاکٹررائو بلال ہے جس نے 2ارب روپے کمائے اور ملتان سے ایک نجی ائیر لائن کے ذریعے قطر فرار ہورہا تھا، سی آئی اے نے اسے وہاں سے گرفتار کرلیا۔ قطر والے ہمارے ملک میں ہونے والی ہر کرپشن کے حصہ دار ہیں اور اب یہ ڈاکٹر بھی فرار ہو کر قطر جارہا تھا۔ یہ تو معلوم کرو کہ قطر کس کے پاس جارہا تھا۔ قطر کا ویزہ کیسے لگا اور اس کی پشت پر کون ہے؟ ارے سی آئی اے والو، ان ملزموں میں ایک دو کو سلطانی گواہ بنالو پھر دیکھو کہ کیا کیا سامنے آتا ہے بشرطیکہ یہاں سفارش اور چمک نہ کہیں چل جائے۔
پچھلے تین برسوں میں یو ایچ ایسے کے14پرچے آئوٹ ہوئے جبکہ اس کے مقابلے میں جب تک پنجاب یونیورسٹی نے ایم بی بی ایس کے امتحانات لئے اتنے پرچے کبھی بھی آئوٹ نہیں ہوئے۔ ذرا دیر کو سوچیں جن نالائق اور دو نمبر اسٹوڈنٹس کو یو ایچ ایس کے کرتا دھرتا انٹری ٹیسٹ میں پاس کرائےکیا وہ بعد میں بھی ان کو ایم بی بی ایس کے مختلف امتحانات میں پاس کرانے کے لئے کیا کچھ نہیں لیتے ہوں گے۔ایف آئی اے والے تحقیق تو کررہے ہیں اور انکشافات بھی ہورہے ہیں مگر ایف آئی اے والوں نے جو گروہ چور ڈاکٹر پکڑے تھے وہ بھی بڑا اسکینڈل تھا۔ اب اس کے بارے میں بالکل خاموشی ہوچکی ہے اور میڈیا بھی فالو اپ نہیں کر رہا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصہ بعد پولیس، ایف آئی اے اور سی آئی اے والے بھی اس اسکینڈل میں چپ سادھ لیں اور پھر کچھ نہ ہو کیونکہ اس گھنائونے کاروبار میں بہت طاقتور گروپ شامل ہیں حالانکہ اصل اور واحد طاقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے۔ اس طاقت سے ڈرنا چاہئے۔ یو ایچ ایس کا یہ کہنا کہ وہ65ہزار اسٹوڈنٹس سے دوبارہ فیس نہیں لے گی یہ کوئی وہ احسان نہیں کررہی بلکہ یو ایچ ایس جیسے کرپشن کے اس ادارے کو بند کردیا جائے جس کی وجہ سے اکیڈیمیوں کے کاروبار نے فروغ پایا اور غریب طالبعلم پر تعلیم کے دروازے بند ہوگئے۔
پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے مالکان اور یو ایچ ایس کے درمیان گٹھ جوڑ ہے یہ بھی ایک روز سامنے آجائے گا کہ کس کس پرائیویٹ میڈیکل کالج کے مالک نے یو ایچ ایس والوں کو کتنا مال کھلایا اور کس طرح پوزیشنیں حاصل کیں ہم عرض کریں تو پھر آگ لگے گی؎
اے درد بتا کچھ تو ہی بتا
اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
میں حیرت و حسرت کا مارا
خاموش کھڑا ہوں ساحل پر

تازہ ترین