• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ، ایک کروڑ خواتین ووٹر زکی رجسٹریشن نہ ہوناقومی ناکامی

اسلام آباد( طاہر خلیل) سوال بہت اہم تھا کہ ایک کروڑ خواتین ووٹر زکی رجسٹریشن کے بغیر آئندہ عام انتخابات کی ساکھ کیسے برقرار رہے گی؟ پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن اور یواین ڈی پی کے تعاون سے پاکستان انسٹیٹیوٹ پارلیمانی سروسز کے آڈیٹوریم میں پارلیمنٹرنز ،میڈیا، سول سوسائٹی کے نمائندے اور این ڈی یو سمیت مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات موجود تھے اور الیکشن ایکٹ 2017 زیر بحث تھا ۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب بتارہے تھے کہ ایک کروڑ خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن نہ ہونا قومی ناکامی ہے جس کے ذمہ دار ہم سب ہیں، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے 18 پارلیمانی پارٹیوں سمیت ملک کی تمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں کو خطوط بھیجے کہ اس معاملے میں الیکشن کمیشن کی مدد کریں، زیادہ تر وہ علاقے جہاں علاقائی اورقبائلی رسوم کی وجہ سے عورت کا گھر سے باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے یہ بلوچستان ،فاٹا یا خیبرپختونخوا کی کہانی نہیں بلکہ پنجاب اورسندھ بھی اس داستان بے حسی کا حصہ ہیں۔2 کے سوا کسی سیاسی پارٹی نے الیکشن کمیشن کو جواب دینا بھی مناسب نہ جانا۔یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بیرونی ملکوں میں مقیم پاکستانیوں نے ہرمشکل وقت میں وطن عزیز کےلئے اپنی جمع پونجی نچھاور کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی۔الیکشن کمیشن سمیت دیگر پارٹیاں اس بات پر متفق تھیں کہ اوورسیز پاکستانیوںکوبھی 2018 کے انتخابات میں ووٹ کا حق ملناچاہیے لیکن مادر وطن سے بے پناہ محبت رکھنے والے تارکین وطن کو اس مرتبہ بھی دیارغیر سےووٹ کا حق نہیںمل سکے گا۔ اس ضمن میں ایک بڑی قباحت غیرملکی قوانین ہیں، مثلا سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر سختی سے پابندی ہے۔ اس لئے وہاں پاکستانی تارکین وطن کو اپنی پسند کے امیدوار کے حق میں کسی بھی طریقےسے انتخابی مہم چلانے یا ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیںدی جائے گی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس حوالے سے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا اورسپریم کورٹ نے اس معاملے کو پارلیمنٹ اورالیکشن کمیشن کے سپرد کر دیا تھا کہ وہ فیصلہ کریں اب جبکہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ کوشش کےباوجود الیکشن کمیشن اوورسیز پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے لئے کوئی طریق کار وضع نہیں کرسکا اور یوں 6ملین سے زائد پاکستانی ووٹ کے حق سے محروم رہیں گے۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ ایک کروڑ خواتین کے حق رائے دہی کا ہے۔کہا جارہا ہے کہ بلوچستان میں سب سے زیادہ عورتیں حق رائے دہی سے محروم ہیں،اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ بد امنی رہی ہے۔ کل تک شوریدگی کا شکار بلوچستان سکیورٹی فورسز کی قربانیوں اورمحنت سے پرامن اور مستحکم ہوتا جارہاہے۔ صوبے کے مشکل پسماندہ علاقوں میں ذرائع آمدورفت کی بحالی سے رسائی آسان اور ممکن بنادی گئی ہے ۔ حکومت، پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن اورمیڈیا سب کی ذمے داری ہے کہ وہ مسئلے کی سنگینی کو پیش نظررکھ کر اس جمود کو توڑیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کایہ تجزیہ بھی یقیناً کسی دھچکے سے کم حیثیت نہیں رکھتا کہ نئے انتخابی قوانین کی منظوری کے بعد عام آدمی کےلئے الیکشن شجر ممنوعہ بن کر رہ جائے گا، انتخابی اخراجات بڑھنے سے انتخابات صرف سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور متمول طبقات تک محدود رہ جائیں گے۔ الیکشن مہنگا ہونے سے تعلیم یافتہ اور با صلاحیت شہریوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ سیاسی قیادت کو قانون کی کتابوں اور ضابطوں سے ہٹ کر وطن عزیز کے سیاسی منظر نامے کونئی سحر کا نقیب بنانا چاہیے کہ 2018 کا الیکشن خود پکارے، پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
تازہ ترین